شروع شروع میں دانشوری کا خمار جب چڑھتا ہے تو ہر برائی اپنوں ہی میں نظر آتی ہے، جو لوگ مجھے مستقل پڑھتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں میں خود کس قدر مسلمانوں کے عادت و اطوار کے خلاف لکھتا رہا ہوں کہ ان کو تو غیر مسلموں کے ساتھ رہنا ہی نہیں آتا، ان کو پرامن بقائے باہمی کا مطلب نہیں پتہ، ان کو فلاں "اصطلاح" کے بارے میں علم نہیں، ڈھکاں ٹرم سے واقفیت نہیں ہے، یہی ہر فتنے کی جڑ ہیں، لیکن میدان عمل میں آنے کے بعد جس طرح ہر سیکولر بندے کو رنگ بدلتے دیکھتا چلا گیا، دانشوری کا خمار بھی سر سے اترتا چلا گیا، کتنے لیڈر ہیں جنہوں نے ہمارا کندھا استعمال کرکے اپنی لیڈری چمکائی، آج وہ کسی اور در پر پڑے نظر آتے ہیں۔
بہت پہلے میں نے لکھا تھا کہ ہندوستان کی اکثریت اب سیکولر نہیں ہے، بھلے ہی سیکولرزم کا دکھاوا کریں، الحمد للہ کل کے شو نے اس بات کو کںفرم کردیا ہے، یوگی اور مودی جی نے رام راجیہ کا اشارہ دیدیا ہے، کانسٹیٹوشن کے پنوں میں ایودھیا میں نمکین بیچے گئے ہیں، تھیوری کا کہنا ہے کہ انڈین کانسٹیٹیوشن کے بیسک اسٹرکچر میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے، مگر حقیقت حال یہ ہے کہ مودی جی آج آفیشیل اعلان کردیں تو اکثریت اسی طرح خوشیاں منائے گی، جس طرح کل منا رہی تھی، سچائی یہی ہے کہ "ہندوتوا" اسٹریم لائن کردیا گیا ہے، اب جس کو بھی سیاست کرنی ہے اسی کے دائرے میں رہ کر کرنی ہے، محبت کی دکان اگلے پچاس سالوں کے لئے بند ہے۔
میں اس صورتحال کو لے کر پریشان نہیں ہوں، میرا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ ہم سب اپنی منزل کو چل رہے ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ایک دن کسی نہ کسی منزل پر پہونچنا ضرور ہے، جتنی زیادہ مصیبتیں آئیں گی اتنے ہی زیادہ اپنے ایمان میں پختہ ہوتے جائیں گے، ہمارے بہت سارے احباب قرآن و سنت کی بات کرتے ہیں، لیکن قرآن و سنت میں غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کتنی اور کس حد تک ہے، اس کا پرچار و پرسار کبھی نہیں کرتے، نتیجہ دیکھ لیجئے، ایک آندھی آئی اور نجانے کتنے پیڑ گر گئے، لوگ شرک جیسی عظیم گناہ میں شرکت کے لئے سڑکوں پر چل رہے ہوتے ہیں، اور ہم رواداری کے نام پر سبیلیں لگاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ شرک ایک ایسا گناہ جسے کبھی نہ معاف کرنے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے، اللہ نے ہمیں اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کا حکم دیا ہے، اور ہمارے دانشوران قوم کیا کر رہے ہیں؟ اس کی بعض آیتوں میں ایمان لا رہے ہیں، اور بعض آیتوں سے پہلوتہی اختیار کر لیتے ہیں۔بھئی آپ سلف صالحین کے فتاوے ڈھونڈئیے، غیر مسلموں کے ساتھ رہائش اور ان ساتھ بود و باش اختیار کرنے کے مسئلے پر ان کی آراء کا تتبع کریں، آپ کو بہت سارے رائج الوقت سکہ بند آراء کا واضح بطلان نظر آئے گا، دن رات بدعت، اہل بدعت اور فلانے ڈھکانے کی باتیں کرتے رہیں گے، اور ایک پوری نسل ہماری بیجا رواداری کے نام پر ارتداد کا شکار ہورہی ہے، اس پر ایک لفظ نہیں لکھیں گے، کل دیکھا ہوگا کتنے باریش مسلمان چھاتی پیٹ پیٹ کر مائک کے سامنے اعلان کرتے نظر آئے کہ رام ہمارے ہیں، رام ہمارے ہیں، ارے بھائی تمہارے کیسے ہیں؟ کچھ ہے کیا قرآن و سنت میں اس تعلق سے رہنمائی؟ اگر ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پھر تمہارے کیسے ہوئے؟ شرک کی خباثت اور اس کی رذالت کا احساس دلوں سے عنقا ہوتا جارہا ہے، یہ سب کس غیر اسلامی فکر کی پیداوار ہے؟
مسلمانوں کو اللہ تعالی نے اس طرح بنایا ہے کہ وہ زیادہ دن تک غیر فطری اور غیر اسلامی چیزوں کے ساتھ نہیں چل سکتے، ایک نسل برائیوں میں ملوث ہوگی تو دوسری نیکوکار بن کر سامنے آجائے گی، اسلام میں قدرت نے ہمیشہ لچک رکھی ہے، ادھر ڈوبیں گے، ادھر نکلیں گے، ہسپانیہ میں سورج غروب ہورہا تھا تو قسطنطنیہ میں طلوع ہورہا تھا، تو یہاں بھی وہی ہوگا، اللہ کی رحمت سے نہ مایوس ہیں، اور نہ ہی بزدلی اور وہن کے شکار ہیں، ہوگا وہی جو نوشتۂ تقدیر ہے۔
کل دیکھا میں نے کہ بہت سارے لوگ لکھ رہے ہیں کہ بابری پر رونے والے اپنے محلے کی مسجدوں کو کب آباد کریں گے، ان کی بات صحیح ہے، لیکن صحیح بات غلط موقع پر ہے، موقع ایک ایسی زمین پر جہاں صدیوں تک نمازیں ادا کی گئیں، رب کا نام لیا گیا، اس پر شرک و بت پرستی کے غلبے پر رونے کا تھا، نہ کہ مسلمانوں کی بد اعمالیوں پر، اگر مسلمانوں کی بد اعمالیاں جواز کا سبب ہیں تو پھر تو جو لوگ سال بھر باہر رہتے ہیں، اپنے گھر نہیں جاتے، ان کے گھر پر اگر کوئی قبضہ کرلے تو ان کا حق ہی نہیں بنتا ہے کہ اس کے لئے مقدمہ کریں، دوڑ بھاگ کریں، کیونکہ الزامی جواب کے طور پر انہیں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر تم نے اپنے گھر کو آباد کیا ہوتا تو قبضہ نہ ہوتا، مسلمانوں کی بد اعمالیاں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، احتساب ہوتے رہنا چاہئے، لیکن اس کے مواقع الگ ہیں، کم سے کم اسی بات پر خوش ہونا چاہئے کہ اتنی بد اعمالیوں کے باوجود بھی پوری قوم درد محسوس کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے، ورنہ وہیں اگر احساس بھی نہ ہوتا تب تو اور بڑی بدنصیبی کی بات ہوتی۔
نجانے کب سے سنتے آتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمان مکی دور میں رہ رہے ہیں، ارے بھئی تو مکی دور کے بعد مدنی دور بھی آیا تھا، وہ ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں کتنی صدی بعد آئے گا؟ اور پھر مکی دور میں بت پرستی کے سامنے کبھی سر تسلیم خم نہیں کیا گیا تھا، کبھی اسلامی اصولوں سے کمپرومائز نہیں کیا گیا تھا، کبھی یہ نہیں کہا گیا تھا کہ تم اللہ اکبر کہہ دو، ہم جے شری رام کہہ لیں گے، مکی دور اپنانا ہی ہے تو مکمل اس کی مضبوطی کے ساتھ اپنائیں، یہ کیا من مرضی کا اسلام بنا رکھا ہے کہ کچھ چیزیں اپنائیں گے، کچھ چیزیں چھوڑ دیں گے۔
بس نام رہے گا الله کا!
