اگر سابقہ تحریر پڑھ کر کسی کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہو کہ حل کیا ہے اور انجام کیا ہے؟ اینڈ رزلٹ کیا ہونا ہے اس کا علم تو بس رب کو ہے، لیکن اگر ہم پروسیس کی بات کریں تو فی الحال مجھے اس کے سوا اور کوئی پروسیس نہیں نظر آتا کہ مسلمان اپنا پورا فوکس اسلام اور تعلیم پر کریں، اللہ تعالی اسلام ہی کی بدولت ہمیں عزت سے سرفراز کرتا ہے، اور اسلامی تعلیمات اور احکامات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہم ذلیل بھی ہوجاتے ہیں، تاریخ کو کریکٹ نہیں کیا جا سکتا، کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ فضول کی بحث ہوچکی ہے، اس پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ ان کتابوں پر لائبریریوں میں اب دیمک لگنے لگے ہیں، ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود ظاہر سی بات ہے کسی نہ کسی مصلحت کی بنیاد پر ہے کہ جب ہمارے پاس آپشن بھی تھا تو پھر اللہ تعالی نے ایسے اسباب کیوں پیدا کئے کہ اچھی خاصی تعداد کو اسی ملک میں رکنا پڑا، جس دن مسلمان اپنے وجود کے پیچھے چھپے وجوہات کو تلاش کرلیں گے، انہیں زندگی جینے کا مقصد مل جائے گا، اور مکی زندگی کے ختم ہونے کا ٹائم لائن بھی ۔
کہیں نہ کہیں ہم اپنی فرقہ وارانہ لڑائیوں میں اتنے الجھ چکے ہیں کہ ہماری جو ترجیح ہونی چاہئے تھی وہ تاریخ کے پنوں میں گم ہو کر رہ چکی ہے، ہماری ترجیح ہندوستان کے گاؤں دیہات تھے جہاں ہمارے پاس دعوت کے بہترین مواقع تھے، لیکن آزادی کے ستر سال تک ہم کوئی بہت زیادہ منصوبہ بند طریقے سے دعوت پر کام نہیں کرپائے، ہم یہ جان ہی نہیں پائے کہ ہندوستان میں ہم صرف رہنے کے لئے نہیں ہیں کہ کسی طرح سے ہمارا وجود باقی رہے، بلکہ ہم سب سے مطلوب و مقصود ایک ہے اور وہ ہے لوگوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ایک وحدہ لا شریک کی طرف لے کر آنا، اور یہ تبھی ممکن ہوپائے گا جب ہم خود اسلام پر عمل پیرا ہوں گے، اور اس کے لئے ہمیں اسلام کے اہم کرائٹیریا "اقرأ" کو پورا کرنا ہوگا، جب ہم خود ہی ان پڑھ رہیں گے تو ہم دنیا کیا بدلیں گے، اور کیونکر بدل سکیں گے؟تعلیم ہماری قوم کی بنیادی ضرورتوں میں سب سے اہم ہے، ہندوستان میں ترقی کا کوئی بھی راستہ اسی سے ہوکر جائے گا، دعوت پر فوکس کرنے کا اچھا خاصہ وقت ہم نے گنوادیا ہے، اب کم سے کم اگلے پچاس سالوں کے لئے تعلیم پر فوکس کرلیں تو ان شاء اللہ العزیز حالات بہت بدل جائیں گے، تعلیم پر فوکس کرنے کے لئے میں کیوں کہہ رہا، کیونکہ یہ بہت ہی پرائم ٹائم ہے، اس وقت اکثریت نشے میں دھت ہے، ان کے نوجوان جنہیں قلم پکڑنا چاہئے تھا وہ ہتھیار پکڑ کر مسجدوں کے سامنے ڈانس کر رہے ہیں، ان کو لگ رہا ہے کہ ایسا کرکے وہ دنیا جیت رہے ہیں، لیکن وہ نہیں سمجھ پارہے کہ یہ نشہ مستقبل میں ان کے لئے کس قدر ہلاکت خیز ثابت ہونے والا ہے، ان کی جب آنکھیں کھلیں گی تو اپنے آپ کو ایسے اندھیرے کنویں میں قید پائیں گے جہاں سے وہ رہائی کی بھیک تو مانگیں گے، مگر انہیں کوئی آزادی دلانے والا نہیں ہوگا، یہ وہ نوجوان نسل ہے کہ جس نے فرقہ وارانہ تشدد کو نہیں دیکھا ہے، اس نے تقسیم کے درد کو نہیں جھیلا ہے، وہ مابعد تقسیم کے فسادات سے بھی ناواقف ہے، سو وہ متحمس ہے، جوشیلا ہے، اس کو لگتا ہے کہ آزاد ہند میں پہلی بار کوئی ملا ہے جو ملاؤں کو ان کی اوقات یاد دلا سکتا ہے، اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے لیڈر امبیڈکر ہونے چاہئے تھے، مگر ہائے افسوس یہ "ہندوتوا" کے فریم ورک میں خود کو فٹ کرانے کے چکر میں مزید پستی میں گرتے جارہے ہیں۔
میں نے اس سے پہلے بھی لکھا تھا کہ جو ابھی ہندوستان کی حالت ہے، میں اس سے پریشان نہیں ہوں، پریشان اس وجہ سے نہیں ہوں کہ یہ اپنے زوال کی داستان خود لکھ رہے ہیں، بیس پرسنٹ کے چکر میں اسی پرسنٹ کو بیوقوف بنایا جارہا ہے اور اسی پرسنٹ کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں تو اب ہم لوگ اس میں کیا کر سکتے ہیں؟ کئی دفعہ گاؤں دیہات کے غیر مسلم بچوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، وہ کسی اچھے شہر میں جا کر پڑھنا چاہتے ہیں، لیکن مجبور ہیں کہ ان کے والدین ان کی فیس نہیں بھر سکتے، یا شہر میں ان کے رہنے کو افورڈ نہیں کر سکتے، اب ان کی حالت پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ اپنے بچوں کو اس حالت میں پہونچانے کے ذمہ دار وہ خود ہیں، بھائی جب آپ کے لئے تعلیم کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے، آپ پانچ کلو راشن پر خوش ہوئے جارہے ہیں تو پھر سرکار اگر تعلیم کا Privatization کر رہی ہے، یونیورسٹیوں کی فیس آسمان کو چھوتی جا رہی ہے اور آپ اس کی کوئی فکر نہیں تو ایک عام مسلمان بیچارہ اس غم میں گھل کر کیا کرے گا؟
میں جتنا بھی سوچتا ہوں مجھے تمام راستے ایک ہی منزل پر لے جاتے ہیں یعنی مکمل اسلام کی طرف رجوع اور ایجوکیشن پر فوکس، اگر کیرلا جیسے اسٹیٹ میں 97 پرسنٹ لٹریسی ریٹ حاصل کی جاسکتی ہے تو مسلم قوم میں کیوں نہیں؟ پڑھ کر ضروری نہیں ہے کہ آپ کو نوکری مل ہی جائے، لیکن پڑھ کر یقینا آپ ایک اچھے انسان ضرور بن جائیں گے، اس کے بعد جو بھی کریں گے، اپنے معاملات اور اخلاقیات سے غیروں کا دل ضرور جیتیں گے، اور اگر گھر کا کوئی ایک آدمی تعلیم کے میدان میں کامیاب ہوگیا تو ان شاء اللہ پورے گھر والوں کا بیڑہ پار لگا دے گا، اس کے ساتھ ہی فوکس تجارت پر بھی کیا جا سکتا ہے، مارکیٹ پر جس کی پکڑ، حکومت میں اس کی اتنی ہی گرفت، لیکن اس کے لئے بھی مسلمانوں کو اعلی اخلاقی تعلیمات سے خود کو لیس کرنا ہوگا ورنہ لین دین کے معاملے میں مسلمان تو بدنام ہیں ہی۔
مزید ہمیں ایسے اسکالرز تیار کرنے ہیں جو اسلام کا مقدمہ بغیر کسی لاگ لپٹ کے لڑ سکیں، رفع الیدین پر لڑائیاں بہت ہوچکی ہیں، اب کچھ لڑائیاں اس پر بھی ہونی چاہئے کہ کون سی میتھڈالوجی شرک و بدعت سے لوگوں کو نکالنے میں زیادہ معاون اور مددگار ہوگی، یقین کریں ہم سب کو کنونس نہیں کرسکتے، لیکن ہم کوشش کرسکتے ہیں، اور ہماری کوششوں پر ہی ہمیں اجر سے نوازا جائے گا، اس دنیا میں ہمیں بھیجے جانے کا مقصد کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بتلائیں کہ "اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں" کہہ دیں نجات پا جائیں گے، اس کے علاوہ ہمیں رواداری اور مداہنت کے درمیان واضح لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے۔
بسا اوقات ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ اخباروں میں بڑے فخر کے ساتھ ہائی لائٹ کیا جاتا ہے کہ فلاں مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دی گئی، یا فلاں مندر میں مسلمانوں نے جا کر نماز پڑھی، یا صاف صفائی کی، تو بھائی یہ سب چیزیں واضح طور پر Convey کرنے کی ضرورت ہیں کہ دیکھئے ایسا ممکن نہیں ہے، رواداری کے نام پر ہم اپنے مذہب سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے، کفر تو بعینہ اسلام کی ضد ہے تو دونوں کو یکساں کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ کمزور عقیدے کی نشانی ہے کہ دونوں کا مقصود ایک ہی ذات کو قرار دیا جائے اور کہا جائے کہ صرف ہماری عبادت میں فرق ہے، بھائی دنیاوی معاملات کی بات الگ ہے، لیکن جہاں دین کی بات آئے وہاں ہمارے راستے الگ ہیں۔
