این سی آر ٹی سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ

 
مغل ایمپائر ایک بار پھر سے خاتمے کے دہانے پر ہے، اس بار لال قلعہ سے نہیں، بلکہ این۔سی۔آر۔ٹی کے سلیبس سے، امرت کال میں جی رہے ہیں نا، سو سڑکوں اور اسمارکوں کے نام کی تبدیلی پر جشن منا کر اکثریتی طبقہ پہلے ہی اپنی احساس کمتری کا ثبوت دے چکا ہے، اب تاریخ سے کچھ پنے حذف کردئیے جائیں گے، تو کیا ہی فرق پڑے گا، بس اتنا ہوگا کہ ان کے بچے نہ پڑھیں گے، نہ سچ جان پائیں گے کہ تاج محل تاج محل ہی ہے یا تیجو مہالیہ، اپنے اپنے ظرف کی بات ہے، مغل دور میں سنسکرت کی حفاظت کی گئی، ہندو لٹریچر میں اضافہ ہوا، اور حالیہ دور میں مغل کو ماضی سے غائب کیا جارہا ہے، احساس کمتری کے مارے لوگوں سے ہم اس کے علاوہ اور کیا امید کرسکتے ہیں۔

مغل کیسے تھے، ان کی دینی زندگی کیسی تھی، وہ کس قدر مسلمان تھے، مجھے نہیں پتہ، لیکن مجھے ان سے محبت ہے کیونکہ ملک کے ایک طبقے کو ان سے نفرت ہے، مجھے ان سے محبت ہے کیونکہ اب انہیں  "مسلم آئیڈنٹٹی" سے جوڑ دیا گیا، ان کے کلچر، ان کی تہذیب و ثقافت، ان کی حکومت سب کو ان کے "مسلمان" ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، سو جس قدر انہیں نشانہ بنایا جاتا رہے گا، میری ان سے محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا رہے گا، وہ بیچارے گزر گئے، ان کے نام پر سیاسی روٹیاں ابھی تک سینکی جارہی ہیں، ان کی ہڈیاں سڑ گل چکی ہوں گی، لیکن پستی کا حد سے گزرنا کوئی ان سے سیکھے کہ ان ہڈیوں کو بھی بخشنے پر تیار نہیں؟

بہرحال یہ وقت کا چکر ویو ہے، اس میں کچھ کر نہیں سکتے، چاہے ان نشانیوں کو لال قلعہ سے بے دخل کردیں، یا مکمل تاریخ ہی نصاب سے ختم کردیں، اس دل ناتواں کو تھوڑی دیر کے لئے تکلیف ضرور ہوگی، مگر یہ سوچ کر قرار بھی آئے گا کہ جب مسلمان بغداد، اندلس اور استانبول کو برداشت کرگئے اور زندہ رہے، سقوط دہلی کو جھیل گئے اور پھر سے اٹھ کھڑے ہوئے، سقوط حیدراباد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اس درخت کی طرح کھڑے ہوگئے جس کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلی ہوئی ہوں اور شاخیں آسمان کو محیط ہوں، تو پھر اس "پاگل پنتی" کا بھی دور گزر ہی جائے گا، مسلمان یہاں رہنے کے لئے ہیں، ختم ہونے کے لئے نہیں۔

میں دہلی میں ان گنت بار لال قلعہ گیا ہوں، میرا اپنا ماننا ہے کہ اگر آپ دہلی میں رہتے ہوئے وقفے وقفے سے لال قلعہ یا جامع مسجد کا دیدار نہیں کرتے تو گویا آپ اپنی جاہ و سطوت کے سبق کو دوبارہ یاد کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، میں جاتا ہوں گھنٹوں اس کی دیواروں کو تکتا رہتا ہوں، ان پر ہاتھ پھیرتا ہوں گویا وہ اینٹ پتھر اور مسالے کے مشرن سے بنی ہوئی دیواریں نہ ہوں، بلکہ میری محبت و عقیدت نے کوئی روپ اختیار کرلیا ہو اور میں فنا فی العشق کے مرحلے کو پار کر رہا ہوں، باہر سے لال قلعہ کی عظیم الشان فصیلوں کا نظارہ کرتا ہوں، میں اس کی ایک ایک اینٹ میں وہ قافلہ تلاش کرنا چاہتا ہوں جو بابر سے چلا تھا، دن سال میں بدلے، اور سال صدیوں میں، اب وہ قافلہ کہیں بھٹک گیا ہے، تاریخ کی رومانیت سے کس کو نہیں عشق ہے، میں بھی اسی نسل سے تعلق رکھتا ہوں جو تصور کی آنکھ سے لال قلعہ کو آباد دیکھ لینا چاہتی ہے، قلعے میں داخل ہوتے ہی وہ محافظوں کے موجود ہونے کا احساس کرنا، ایک عظیم الشان سلطان کی بارگاہ میں سلام عرض کرنے کا خیال پیدا کرنا، وہ دیوان عام کے سامنے عوام کے اکٹھا ہونے کا مشاہدہ کرنا، اور دیوان عام میں امراء و وزراء کا ادب و احترام کے ساتھ کھڑا رہنا، وہ چوبدار کا شہنشاہ ہند کی آمد کا اعلان کرنا اور شہنشاہ کا تخت افروز ہونا، اور پھر دیوان خاص کی اپنی ادائیں اور عشوہ طرازیاں، آہ عالم خیال کا کیا کہنا، تصور جاناں کا اپنا الگ ہی مزہ ہے، لال قلعہ پر موسم خزاں کا احساس تکلیف دہ ہے، لیکن بہار کی یادیں بہت پر لطف ہیں۔

گزشتہ کچھ دنوں پہلے پھر اسی دیوان میں کھڑا تھا، سنگ مرمر سے بنے شہنشاہ کے بیٹھنے کی جگہ کو نہار رہا تھا، ماضی مکمل آنکھوں میں اتر آیا تھا، دربار عالیہ کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی، تاجدار ہند کو سلام عرض کیا، پھر منہ پھیر کر کھڑا ہوگیا تاکہ میں حال سے کہیں نظریں نہ چھپالوں اور حال یہ ہے کہ دیوان عام کے سامنے کا میوزیم اب ویران ہوچکا ہے، ممتاز محل کا بھی میوزیم پتہ نہیں کہاں غائب ہوچکا ہے، مغلیہ دور کی ساری نشانیاں، وہ فرامین، نجانے کہاں غائب ہوچکے ہیں، لال قلعہ اب اپنی ہی زمین میں انجان ہوچکا ہے، نہ وہ کپڑے، نہ وہ ہتھیار، نہ وہ سازو سامان، سب نجانے کہاں شفٹ کردئیے گئے ہیں، لے دے کے کچھ عمارتیں بچی ہیں، ڈر ہے کہ کسی دن وہ بھی نہ غائب ہوجائیں، ہاں برطانوی استعمار کی یادگار عمارتیں بہت سلیقے سے آباد کر دی گئی ہیں، اور ان میں مسلمانوں کے یادگار کے نام پر کچھ "اخباروں" کے تراشے ہیں، اور کچھ گنے چنے لوگوں کے تذکرے، باقی سب سونتتر سینانیوں کے نام کردئیے گئے ہیں، وہ بھی ایک مخصوص مذہب کے، شاید ان سب کے پیچھے مقصد یہ ہو کہ زائرین اب مغلوں کی تہذیب و ثقافت سے متأثر ہونے کے بجائے جدید "نیشنلزم" کا کانسیپٹ گھر لے کر جایا کریں، یا پھر ممکن ہے کہ میں ہی نہ جان پایا ہوں کہ مغلیہ دور کی نشانیاں اب کہاں رکھی ہیں۔

بہرحال یہ وقت کا چکر ویو ہے، اس میں کچھ کر نہیں سکتے، چاہے ان نشانیوں کو لال قلعہ سے بے دخل کردیں، یا مکمل تاریخ ہی نصاب سے ختم کردیں، اس دل ناتواں کو تھوڑی دیر کے لئے تکلیف ضرور ہوگی، مگر یہ سوچ کر قرار بھی آئے گا کہ جب مسلمان بغداد، اندلس اور استانبول کو برداشت کرگئے اور زندہ رہے، سقوط دہلی کو جھیل گئے اور پھر سے اٹھ کھڑے ہوئے، سقوط حیدراباد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اس درخت کی طرح کھڑے ہوگئے جس کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلی ہوئی ہوں اور شاخیں آسمان کو محیط ہوں، تو پھر اس "پاگل پنتی" کا بھی دور گزر ہی جائے گا، مسلمان یہاں رہنے کے لئے ہیں، ختم ہونے کے لئے نہیں، سو جو ہورہا ہے، اس سے بہت زیادہ دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہاں بس اتنا کر لیں کہ وہ تاریخ مٹانے پر تلے ہوئے ہیں، تو آپ تاریخ سجونے پر تل جائیں، وہ آپ کی تاریخ کو لکھنا بند کرسکتے ہیں، لیکن آپ اپنی تاریخ تو خود لکھ سکتے ہیں، سینہ بہ سینہ نقل کر سکتے ہیں، نسل در نسل اسے پہونچا سکتے ہیں، قلم آپ کا ہے، کاغذ آپ کا ہے، جتنا ہوسکے لکھئے، جتنا ہوسکے اس تاریخ کو اگلی نسلوں تک منتقل کیجئے، کہ فی الحال بس یہی مطلوب و مقصود ہے، کیونکہ جیسے 1923 والوں کو نہیں پتہ تھا کہ دنیا 2023 میں کیسی ہوگی، اسی طرح موجودہ دور کے لوگوں کو نہیں علم کہ ایک صدی کے بعد دنیا کیسی ہوگی، یہ ہندوستان کیسا ہوگا، سو اس دور میں شاید آج کی تحریریں ہی مشعل راہ ہوں گی، جیسے ماضی کی تحریریں آج ہمارے لئے ہیں، سو اس تاریخی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے لکھیں۔

عزیر احمد
ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی