راشد حسن مبارکپوری: علم و فضل کا ابھرتا ہوا ستارہ

بہت کم ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مجھے اپنے علم و فضل سے متأثر کر پاتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بچپن ہی سے میرے سامنے آئیڈیل کے طور پر میرے ماموں محترم دکتور وصی اللہ محمد عباس، مفتی حرم و پروفیسر ام القری یونیورسٹی رہے، جن کی کہانیاں سن سن کر بڑے ہوئے ، اور جن کے علم و فضل کا زمانہ معترف ہے، پھر اتفاق سے پڑھائی کے سمندر میں تھوڑی بہت میں نے بھی غواصی کرنے کی کوشش کی، زیادہ کچھ تو نہیں حاصل کرپایا، ہاں بس اس چیز کی تھوڑی سی پرکھ ہوگئی کہ کون حقیقی معنوں میں علم و فضل سے آراستہ ہے، اور کون بس یونہی پڑھا لکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں جلدی کسی کے ٹائٹل سے متأثر نہیں ہوتا، لیکن ہاں کوئی اگر استاد راشد حسن جیسی شخصیت سامنے ہو تو پھر کیا کہنے، آنکھیں خود بخود احترام میں جھکی چلی جاتی ہیں، انگلیاں جنبش نہیں کرپاتیں ہیں، قلم عزت و احترام کی وجہ سے جملے کھودیتا ہے، میرے ساتھ یہ بھی ایک پریشانی ہے کہ جس سے میں علمی اعتبار سے متأثر ہوجاتا ہوں، اس کے سامنے پھر زبان کھولتے ہوئے مجھے ہزار بار سوچنا پرتا ہے۔
راشد حسن مبارکپوری ان لوگوں میں سے ہیں جن سے میں بے پناہ للہ فی اللہ محبت کرتا ہوں، جن کی قدر کرتا ہوں، ان کے اسٹیٹیس پر مجھے کمینٹ کرنا ہوتا ہے تو بہت سوچ کر لکھتا ہوں کہ مبادا کہیں کسی جملے میں بے ادبی نہ در آئے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں شاید کچھ زیادہ ہی مرعوب ہوں ، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے، آپ ایک مرتبہ شیخ راشد سے ملیں گے تو آپ بھی ان کے لگن اور جذبے کو دیکھ کر متأثر ہوجائیں گے۔
راشد حسن بھائی کو اللہ تعالی نے بڑی آزمائشوں سے بھی گزارا، اس کے باوجود ان کے پایہ استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، اور انہوں نے ہر مصیبت کے موقع پر خود کو بہت ہی کمپوزڈ اور Dignified پرسنالٹی کے طور پر پیش کیا۔
ایک ایسے دور میں جب سوشل میڈیا کے ذریعہ ہر شخص اپنی شناخت بنانے میں لگا ہوا ہے، حالانکہ سب کو پتہ ہےکہ وہ علمی دنیا میں کس مقام پر کھڑا ہے، یا اپنی تمام تر علمی بے مائیگی کے احساس کے باوجود خود کو سوشل میڈیا کا بے تاج باشاہ ثابت کرنے اور ایک ٹرول آرمی تیار کرنے میں لگا ہوا ہے، ایسے دور میں راشد حسن بھائی جیسے لوگ امت مسلمہ کے لئے کسی چراغ سے کم نہیں ہیں، اس کم عمری میں ہی انہوں نے ترجمہ و تالیف کے میدان کو جس طرح سے سر کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن ہم امت محمدیہ کا مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں سنجیدہ اور ذی علم لوگ کم ہی بھاتے ہیں، ہاں تحریروں اور تقریروں میں جذبات بیچنے والے، مسلک و مذہب نام کے نام پر ٹھگی کرنے والے، اور بہت بڑا علامہ ہونے کا ڈھونڈورا پیٹ کر لوگوں کو بیوقوف بنانے والے ہمیں خوب پسند آتے ہیں، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے معاملات درست نہیں، جن کے یہاں مالی فساد اور کرپشن ہے، ملت کے سرمایے کا ذاتی استعمال ہے، اس کے باوجود وہ مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں، لیکن جو حقیقی اہالیان علم و فضل ہیں وہ بیچارے کہیں کسی کونے کھدرے میں پڑے رہتے ہیں، چپ چاپ، اپنی کتابوں کی دنیا میں مگن، ان کی اہمیت ہم ان کی وفات کے بعد ہی سمجھ پاتے ہیں، کہ ہم نے کس ہیرے کو کھودیا ہے، بسا اوقات علماء کے مابین معاصرانہ چپقلش بھی تمام تر علمی انجازات سے آنکھ موند لینے پر آمادہ کردیتی ہے۔
شیخ راشد بہت زیادہ سوشل میڈیا پر نہیں لکھتے ہیں، اور یہ ان کے لئے مفید بھی ہے، سوشل میڈیا کی دنیا بہت ہوا ہوائی ہے، یہاں پر پوری زندگی ایک کتاب بھی ڈھنگ سے نہ پڑھنے والا نصیحت کرتا نظر آجاتا ہے، کٹ پیسٹ کرکے مجتہد ملت کا زعم پالنے والے بھی خوب نظر آتے ہیں، اس چکر میں جو حقیقی علماء ہیں وہ بھی سوشل میڈیا پر لائیکس اور کمینٹس کے چکر میں کہیں نہ کہیں منزل مقصود سے بھٹک جاتے ہیں، ایسی صورتحال میں اس ورچؤل دنیا سے کٹ کر اگر کہیں کوئی علمی کام کر رہا ہے تو حقیقی معنوں میں وہی کامیاب ہے، اور مجھے لگ رہا ہے کہ راشد بھائی اپنی ذات میں ہی انجمن بننے کی راہ پر گامزن ہیں، اللہ تعالی انہیں مزید توفیق عطا کرے۔
راشد حسن بھائی کی نئی کتاب آرہی ہے، پہلی مرتبہ انہوں نے کسی ناول کا ترجمہ کیا ہے۔ پروفیسر جنید حارث صاحب نے راشد بھائی کے تعارف میں لکھا ہے۔
"مترجم محترم راشد حسن مبارکپوری عہد حاضر ان نمایاں مؤلفین، مترجمین اور محققین میں سے ہیں جنہوں نے بہت جلد اپنی علمی، تحقیقی، ترجمہ و تعریب کی صلاحیتوں کا اعتراف کروا کے ناموروں کے درمیان جگہ بنائی، ان کے متعدد علمی کارناموں نے اہل ذوق کو حیران کردیا، کئی عربی کتابیں عالم عربی: کویت، بیروت، دمشق، مدینہ سے شائع ہوئیں اور پریس میں ہیں، ہندوستان میں اس طرح کی مثالیں اس کم عمری میں کم ہی مل سکیں گی، متعدد اردو، عربی تالیفات، ترجمے، تحقیقات کے ذریعہ اہل علم سے خراج لے چکے ہیں، دنیا کے بڑے محققین کے مطمح نظر ہیں، ان سے باہمی افادہ و استفادہ پر یقین رکھتے ہیں، پینتیس (35) کے قریب کتابوں پر کام کیا ہے، کچھ چھپ چکی ہیں، کچھ منتظر طباعت ہیں۔
غالبا وابستگان ترجمہ و تحقیق کے لئے یہ بات تعجب خیز ہو کہ محض چالیس دنوں میں تقریبا چار سو صفحات پر مشتمل اس ناول کا نہ صرف سلیس، رواں، اور ادبی ترجمہ کیا، بلکہ اسی مدت میں کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور طباعت تک کے سارے مراحل طے کرکے اپنی انفرادی شناخت کا ثبوت فراہم کیا۔"
پروفیسر شمس الرب بھائی نے شیخنا راشد بھائی کے بارے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ "راشد حسن نام نہیں رہا، برانڈ بن چکا ہے، ایک ایسا برانڈ جو گوناگوں علمی وادبی منتجات کے لیے جانا جاتا ہے‫‫‫‫، خوش گوار حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام منتجات معیار کی بلندی میں فلک کی پیشانی چومتے ہیں. تالیف وتصنیف اور تحقیق وتعریب کے میدان میں راشد بھائی کی صلاحیتوں کا اعتراف اساطین علم وفن کرتے ہیں اور اب ایک شاہکار عربی ناول کا اردو میں ترجمہ کر کے انہوں نے ادبی ترجمہ نگاری کے میدان میں بڑی شان کے ساتھ قدم رکھا ہے. ہم فاضل ترجمہ نگار کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان سے زیادہ باذوق قارئین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہیں ایک شاہکار ادبی تخلیق کا انتہائی خوبصورت ترجمہ پڑھنے کو مل رہا ہے۔"
اللہ تعالی راشد بھائی کے قلم کو اسی طرح رواں رکھے، اور امت کے حق میں انہیں مفید بنائے۔

راشد بھائی کی کچھ کتابیں ملاحظہ فرمائیں۔


















1 تبصرے

  1. ماشاءاللہ ۔۔ ماشاءاللہ ۔۔ بہت خوب ۔۔ بہت ہی عمدہ تعارف ۔۔ راشد بھائی کی سرگرمیاں دیکھ کر دلی خوشی ہوتی ہے اور ان سے مزید توقعات وابستہ ہوگئی ہیں کہ وہ اپنی خاندانی لیگیسی کو آگے بڑھانے کے قابل ہو گیے ہیں۔ پروفیسر شمس الرب صاحب نے بجا فرمایا ہے کہ "راشد حسن نام نہیں رہا، برانڈ بن چکا ہے، ایک ایسا برانڈ جو گوناگوں علمی وادبی منتجات کے لیے جانا جاتا ہے‫‫‫‫۔۔۔ " راشد بھائی کی خدمت میں بہت بہت مبارک 💐💐💐

    جواب دیںحذف کریں
ایک تبصرہ شائع کریں
جدید تر اس سے پرانی