اچھا سب سے زیادہ تعجب اس وقت ہوتا ہے جب فریق مخالف کو نہ پڑھنے کی دعوت دینے والا اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو خود کو پڑھا لکھا اور عالم باور کراتا ہے، اور وہ عموما انہیں لوگوں کو مشورہ بھی دینے والا ہوتا ہے جو مدرسے میں پڑھنے والے ہوتے ہیں، یا مدرسے سے پڑھ کر نکل چکے ہوتے ہیں، ورنہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ مشورے عوام الناس کے لئے ہوتے ہیں، کیا یہ لمبی لمبی تحریریں عام لوگ پڑھتے ہیں؟ ہمارے پڑھنے والے طلبہ پڑھتے ہی نہیں ہیں، اور ہم نہ پڑھنے والوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ریسرچ کریں گے۔
خیر یہ انسانی فطرت ہے، ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ جس جماعت سے وہ وابستہ ہے وہی بس صراط مستقیم سے وابستہ مانی جائے، یہی وجہ ہے کہ اگر کبھی اپنے کسی ہم مسلک سے کسی غیر کا نام سن لیتے ہیں، کہ فلاں بھائی صاحب بہت اچھا لکھتے ہیں، ذرا انہیں بھی پڑھا کریں، تو پھر ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں، اور پھر اپنی ساری انرجی اسی پر صرف کردیتے ہیں کہ کس طرح یہ ثابت کردیا جائے کہ فلاں کا نام لینا کس قدر غیر منہجی ہے، اور کس طرح لوگوں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ اور ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے کبھی بھی براہ راست فلاں صاحب کو پڑھنے کی نہ تو کوشش کی ہے، اور نہ ہی پڑھا ہے، بس غیروں سے سنا ہے، اور غیروں سے کہا ہے۔
میں حال ہی میں سید قطب علیہ الرحمۃ کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا، سید قطب ایسے رائٹر ہیں کہ آج کے دور میں ان کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے، اور ہم تو ٹھہرے کچھ باغی قسم کے، ہمیں جن لوگوں سے منع کیا جاتا ہے، میں اکثر کوشش کرتا ہوں کہ میں ان کو براہ راست پڑھ یا سن لوں کہ ایسا کیا ہے بھائی صاحب میں کہ ایک دنیا لگی پڑی ہے، پھر مجھے لگتا ہے کہ نہیں، جس طرح ہائپ کریٹ کیا گیا ہے معاملہ ویسا ہے نہیں، بہرحال ان کی کتاب کے بعض اقتباسات اتنے زبردست ہیں کہ اگر انہیں بغیر کسی سیاق و سباق کے صرف اقتباس شئیر کردیا جائے تو لوگ کہیں گے کہ سید قطب مسلم حکمرانوں پر کتنے سخت ہیں، لیکن اگر اس کتاب کو براہ راست پڑھ لیا جائے اور جس زمانے میں اس کتاب کو لکھی گئی، اور پھر جہاں سے وہ تعلق رکھتے ہیں، اس زمانے اور جگہ کے حکمرانوں کا تقابلی جائزہ لے لیا جائے تو پھر احساس ہوگا کہ یار انہوں نے تو ہاتھ ہلکا ہی رکھا ہے، کچھ اکھڑ ٹائپ کے ادیب ہوتے تو شاید گالیوں کی دنیا میں ادبی اضافہ کر چکے ہوتے۔
خیر یہ انسانی فطرت ہے، ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ جس جماعت سے وہ وابستہ ہے وہی بس صراط مستقیم سے وابستہ مانی جائے، یہی وجہ ہے کہ اگر کبھی اپنے کسی ہم مسلک سے کسی غیر کا نام سن لیتے ہیں، کہ فلاں بھائی صاحب بہت اچھا لکھتے ہیں، ذرا انہیں بھی پڑھا کریں، تو پھر ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں، اور پھر اپنی ساری انرجی اسی پر صرف کردیتے ہیں کہ کس طرح یہ ثابت کردیا جائے کہ فلاں کا نام لینا کس قدر غیر منہجی ہے، اور کس طرح لوگوں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ اور ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے کبھی بھی براہ راست فلاں صاحب کو پڑھنے کی نہ تو کوشش کی ہے، اور نہ ہی پڑھا ہے، بس غیروں سے سنا ہے، اور غیروں سے کہا ہے۔
تو بھئی آپ جب تک پڑھیں گے نہیں، ایک لارجر پرسپیکٹیو میں سوچنے کے قابل نہیں بن پائیں گے، اپنا سوشل دائرہ بڑھائیں، غیر مسالک کے افراد سے تعلق قائم کریں، انہیں بھی پڑھیں، ان کے بھی استنباطات کو سمجھنے کی کوشش کریں، اگر آپ نے اپنے مسلک کے مدرسے میں دس بارہ سال دے دیا ہے، اس کے بعد بھی آپ کے ہم مسلک لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر آپ نے کسی اور کے کتاب کو ہاتھ لگایا تو راہ راست سے بھٹک جائیں گے، تو پھر میرا مشورہ ہے کہ راہ راست سے بھٹک جائیں، یا پھر لکھنے پڑھنے، اور نئے زاویوں پر غور و فکر کرنے اور نئی جہتیں تلاش کرنے سے باز آجائیں کیونکہ ویسے بھی آپ کے مسلک کے قدماء نے پہلے ہی اچھا خاصہ لکھ دیا ہے، سو مزید آپ کو سر کھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ کو دیوبندی رہنا ہے، آپ دیوبندی رہیں، آپ کو سلفی رہنا ہے، آپ سلفی رہیں، آپ کو کسی بھی نظریے یا مسلک کا پیروکار بن کر رہنا ہے، بن کر رہیں، میں آپ کو مشورہ نہیں دے رہا کہ اپنا مسلک چھوڑ دیں، لیکن غیروں کو پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اس فکری شدت پسندی میں کمی ہوگی جس کا اینڈ رزلٹ کبھی کبھار عملی تشدد کی شکل میں بھی رونما ہوجاتا ہے، آج کل میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس میں دو ہزار کے بعد برصغیر میں مسلکی لڑائیوں پر بڑی اچھی گفتگو کی گئی ہے، ہندوستان میں معاملہ کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ہے، کیونکہ یہاں مسلمانوں کا پالا بحیثیت قوم غیروں سے پڑا ہوا ہے، اسی لئے اس طرح شدت پسندی دیکھنے میں نہیں آئی جس کا مشاہدہ ہم نے پڑوس میں کیا ہے۔
کیا ہوتا ہے جب ہم پبلک میں چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ فلاں آدمی گمراہ ہے، فلاں ایسا ہے، تو ہم لوگوں کے لئے ڈسکورس سیٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ اچھا اگر گمراہ ہے تو پھر اسے جینے کا کیا حق ہے؟ اس کے مرجانے سے کیا رب کی خوشنودی نہیں حاصل ہوگی؟ پھر کوئی سر پھرا اٹھتا ہے اور مسلک منہج کی حفاظت کے نام پر ایسا کام کر جاتا ہے کہ اسلام ہی بدنام ہوجاتا ہے۔
آپ کو دیوبندی رہنا ہے، آپ دیوبندی رہیں، آپ کو سلفی رہنا ہے، آپ سلفی رہیں، آپ کو کسی بھی نظریے یا مسلک کا پیروکار بن کر رہنا ہے، بن کر رہیں، میں آپ کو مشورہ نہیں دے رہا کہ اپنا مسلک چھوڑ دیں، لیکن غیروں کو پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اس فکری شدت پسندی میں کمی ہوگی جس کا اینڈ رزلٹ کبھی کبھار عملی تشدد کی شکل میں بھی رونما ہوجاتا ہے، آج کل میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس میں دو ہزار کے بعد برصغیر میں مسلکی لڑائیوں پر بڑی اچھی گفتگو کی گئی ہے، ہندوستان میں معاملہ کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ہے، کیونکہ یہاں مسلمانوں کا پالا بحیثیت قوم غیروں سے پڑا ہوا ہے، اسی لئے اس طرح شدت پسندی دیکھنے میں نہیں آئی جس کا مشاہدہ ہم نے پڑوس میں کیا ہے۔
کیا ہوتا ہے جب ہم پبلک میں چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ فلاں آدمی گمراہ ہے، فلاں ایسا ہے، تو ہم لوگوں کے لئے ڈسکورس سیٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ اچھا اگر گمراہ ہے تو پھر اسے جینے کا کیا حق ہے؟ اس کے مرجانے سے کیا رب کی خوشنودی نہیں حاصل ہوگی؟ پھر کوئی سر پھرا اٹھتا ہے اور مسلک منہج کی حفاظت کے نام پر ایسا کام کر جاتا ہے کہ اسلام ہی بدنام ہوجاتا ہے۔
اس لئے بہتر ہے کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ سن رشد کو پہونچ چکے ہیں، تو پڑھ لیں یار، جو جو ملے سب پڑھ لیں، پھر اس کے بعد اپنا نظریہ قائم کریں، کہ فلاں صاحب کو میں نے پڑھا، مجھے ان کی یہ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں، یا فلاں فلاں پوائنٹس پر مجھے اعتراض ہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ علمی لٹریچر میں ایک اضافہ ہوگا، اور کسی ایک ہی مسئلے میں مختلف آراء لوگوں تک پہونچ جائیں گی، اب یہ کیا بات ہوئی، نہ خود پڑھیں اور نہ ہی غیروں کو پڑھنے دیں۔
علم پر کسی بھی ملک کی سیاست کو حاوی نہیں ہونے دینا چاہئے، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھار ویلڈ پوائنٹس بھی محض سیاسی تعصب کی بنیاد پر رد کردئیے جاتے ہیں، سو سیاست ایک طرف رکھیں، سمجھ میں آئے تو ابن رشد کو بھی پڑھ لیں، غزالی کو بھی پڑھ لیں، باقی علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ تو ہیں ہی اپنے پاس، کبھی کسی مسئلے میں بھٹکنے لگیں تو ان کا نظریہ تلاش کر لیں، انفجار معلومات کے دور میں بس انگلیوں کے کلک کی دیری ہے، پڑھنے والوں کے لئے راہیں ہموار ہیں، اور نہ پڑھنے والوں کے لئے ہزار موانع ہیں۔
علم پر کسی بھی ملک کی سیاست کو حاوی نہیں ہونے دینا چاہئے، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھار ویلڈ پوائنٹس بھی محض سیاسی تعصب کی بنیاد پر رد کردئیے جاتے ہیں، سو سیاست ایک طرف رکھیں، سمجھ میں آئے تو ابن رشد کو بھی پڑھ لیں، غزالی کو بھی پڑھ لیں، باقی علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ تو ہیں ہی اپنے پاس، کبھی کسی مسئلے میں بھٹکنے لگیں تو ان کا نظریہ تلاش کر لیں، انفجار معلومات کے دور میں بس انگلیوں کے کلک کی دیری ہے، پڑھنے والوں کے لئے راہیں ہموار ہیں، اور نہ پڑھنے والوں کے لئے ہزار موانع ہیں۔
عزیر احمد
