حالیہ کانفرنس کے تعلق سے میرا تأثر

 


حال ہی میں جمعیت علماء ہند کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں دیگر مذاہب کے دھرم گرؤوں کو دعوت دی گئی، اس کانفرنس کی جو خاص بات تھی وہ حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کی تقریر تھی، جس میں انہوں نے کئی ایسی باتیں کہیں جو ان دھرم گرؤوں کو پسند نہیں آئیں، کسی جین سماج کے دھرم گرو نے ان کے بیان کو بھڑکاؤ بتاتے ہوئے کانفرنس سے کھسک لینے میں عافیت محسوس کی، اس کانفرنس کے تعلق سے میرا تأثر یہ ہے کہ جن دھرم گرؤوں کو ان کے اپنے فیملی اور رشتے دار بھی نہیں پوچھتے، انہیں ہم اپنے جلسوں میں بلا بلا کر، اور سمانت کرکے ان کی سیاسی دکان چمکا دیتے ہیں، بھئی اگر واقعی میں دھرم گرؤوں سے رابطہ بڑھانا ضروری ہے تو پھر ان لوگوں کو اپروچ کیا جائے جن کی لاکھوں میں فین فالونگ ہو، جنہیں ان کے ہم مذہب حقیقی معنوں میں اپنا رہنما سمجھتے ہوں، اور پھر ان دھرم گرؤوں سے تعلقات بڑھانا ہی کیونکر؟ جب توحید اور شرک دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں تو پھر تعلقات بڑھا کر تلخیوں کے بجائے اور کیا حاصل ہوگا؟ ہاں اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ مل بیٹھ کر فیصلہ کیا جائے کہ آپ اپنے مذہب پر عمل کریں، ہم اپنے مذہب پر، تو اسے سمجھنے کی ضرورت اقلیتی طبقہ کے بجائے اکثریتی طبقہ اور ان کے رہنماؤں کو ہے، اپنے اسٹیج پر زبردستی غیر معروف دھرم گرؤوں کو کھینچ کر لانے کی للک ہماری انسیکوریٹی کو درشاتا ہے۔

آپ دیکھیں گے شاستری جیسے لوگ "آپ کی عدالت" میں بیٹھ کر "ہندو راشٹر" کی وکالت کرتے ہیں، اور پورا اسٹوڈیو تالی بجاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ دھرم صرف ایک ہے، باقی سب پنتھ ہے، قانون کی شروعات "رام" سے ہوتی ہے، پورے آڈینس میں سے کوئی بھی کھڑے ہو کر نہیں کہتا ہے کہ یہ بات ہندوستان کے قانون کے خلاف ہے، تو جب دماغ اکثریتی طبقہ ہونے کے نشہ میں ہیک ہوچکا ہو تو ان دھرم گرؤوں کے اسٹیج پر ہونے اور اصطلاحات کو توڑ مروڑ کر غیر اسلامی رنگ دینے سے کیا فرق پڑے گا؟ اگر بہت زیادہ ڈر لگ رہا ہے تو پھر ڈائریکٹ انہیں لوگوں کو اپروچ کرلیں نہ بھائی جو پاور میں ہیں کہ دیکھیں آپ حکومت چلائیں، ہمیں کوئی آپتی نہیں، بس ہمیں سکون سے رہنے دیں، یقین مانیں اگر وہ لوگ چاہ لیں تو ایک سکینڈ میں ساری نفرت ہوا ہوائی ہو سکتی ہے، آپ بطور مثال حالیہ فلم پٹھان کے معاملے میں ہی دیکھ سکتے ہیں، ریلیز سے پہلے اس قدر ہنگامہ ہوا کہ لگ رہا تھا کہ اگر فلم کسی تھیٹر میں ریلیز ہوئی تو شاید تھیٹر کے ساتھ تھیٹر کا مالک بھی نہ بچے، لیکن بس اندر اندر کچھ ایسا ہوا کہ مودی جی کو کہنا پڑا کہ زبردستی فلموں کے بائیکاٹ کا مہم نہ چلائیں، ایک دن پہلے آسام کے وزیر اعلی نے فلم کے اداکار کو  پہچاننے سے انکار کیا، اور دوسرے دن جی جی کرکے بیان دیا، تو اسی طرح آپ لوگ بھی یا تو اندر اندر کچھ اسی قسم کی سیٹنگ کر لیں کہ اگر مطمح نظر حکومت ہے تو ہم روٹی کپڑا، مکان اور شانتی کے بدلے آپ کو مکمل سمرتھن دینے کے لئے تیار ہیں، باقی یہ سب الٹے سیدھے لوگوں کو بلا کر یہ سمجھیں کہ ملک کی فضا بدل جائے گی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔

اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ نہیں، ان کی حکومت کو سمرتھن دینے میں ہمارا نقصان ہے، تو پھر حزب مخالف سے آپ تعلقات بڑھا لیں، میڈیا میں کمیونسٹ ایکو سسٹم بہت مضبوط ہے، آپ بھی اس ایکو سسٹم کا حصہ بن جائیں، کانگریس جب حکومت میں تھی تب تو اس کے وزراء، سفراء سے پینگیں تھیں، اب حکومت میں نہیں ہے تو اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے میں بھی ڈر لگتا ہے؟ اس ملک کی جو کور آئیڈیالوجی ہے اس پر کانگریس نے برسوں کام کیا ہے، سو ان دھرم گرؤوں سے بہتر آپشن تو کانگریس ہے، لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ کانگریس کے ساتھ اسٹیج شئیر کرنے سے آپ کا اسٹیج سیاسی ہوجائے گا، اور ہندو مسلم اتحاد کے فریم ورک کو نقصان پہونچے گا تو معاف کیجئے گا دھرم گرؤوں کے کے ساتھ اسٹیج شئیر کرنا بھی ایک پولیٹیکل اسٹیٹمنٹ (کہ ہمیں مقتدرہ جماعت کے "توڑو اور راج کرو کے نظریات سے اتفاق نہیں ہے، اور ہم اس کے متوازی نیا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں تمام مذاہب کا احترام ہے) ہی ہے، اور کبھی کبھار مزید زحمت کا باعث بھی۔

اس ملک کی شیرازہ بندی جب تک نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوگی، اور جب تک ملک کا ایک ایک باشندہ یہ نہیں سمجھے گا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کا راز ہندو - مسلم اتحاد میں ہی پنہاں ہے، اس وقت تک ان سدبھاؤنا جلسوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اور یہ آئیڈیالوجیکل گراؤنڈ کم سے کم ہندوستانی پس منظر میں ہمیں گاندھی، آزاد اور نہرو کی تحریروں کے علاوہ کہیں نہیں ملے گا، آزاد کے یہاں "مسلم  آئڈنٹٹی" کا Assertion ہے، آزاد نے کبھی بھی اپنے "مسلم-نیس اور مسلم کلچر" سے سمجھوتہ نہیں کیا، عوامی مقامات پر "داڑھی، ٹوپی اور اردو کا استعمال ہمیں یہی بتلاتا کہ اس دیش میں ہم "شریک" ہیں، "محکوم" نہیں، ڈر کر ان کے پاس جانا، ان کے پاس جانا، یہ کرلینا، وہ کرلینا، سب فائدہ مند نہیں ہے، صحیح معنوں میں اگر استقرار چاہئے تو اس کے لئے پھر آپ کو یا تو سرکار کے پکچھ میں رہنا پڑے گا یا سرکار کے مخالف کیمپ یعنی اپوزیشن و دیگر کا ساتھ دینا پڑے گا۔ اور اگر بین المذاہب مکالمہ لازمی ہوا تو پھر بنارس، کاشی، اور متھرا کے ساتھ ساتھ مختلف دھاموں کے دھرم گرؤوں کو اپروچ کرنا پڑے گا،ورنہ باقی سب کانفرنس تک ہی سیمت رہے گا اور زمینی رزلٹ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی