پڑوس کے پڑوسی ملک میں مسلم طالبات کے لئے یونیورسٹی کی تعلیم "کالعدم" قرار دینے کے پیچھے کیا اسباب ہیں، کیا ایسا فیصلہ اسلامی اور شرعی اصولوں کی بنیاد پر لیا گیا ہوا، یا پھر جیسا انگریزی اخبارات لکھ رہے ہیں ویسا معاملہ ہے کہ جب دنیا یوکرین میں پھنسی پڑی ہے تو یہ لوگ موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے پھر سے وہی سب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اس سے پہلے کر چکے ہیں؟
مسلمانوں کے یہاں سب سے بڑی پریشانی یہی ہے کہ وہ آج تک یہ ڈی کوڈ ہی نہیں کر پائے ہیں کہ شریعت میں فرد کو کتنا اختیار دیا جائے، اور ریاست کو کتنا اختیار ہو، اور پھر فرد اور ریاست دونوں کے حقوق کی حفاظت کیسے ہو، نیز انسانی حقوق کا منشور کیا ہو، ریاست شہریوں کی ذاتی زندگی میں کہاں تک دخل اندازی کرے، اور کہاں رک جائے، ابھی رات میں پوسٹ اپرائزنگ مصر کے حالات کے بارے میں ایک ریسرچ پیپر پڑھ رہا تھا، اس میں اسلامسٹوں کے ناکام ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب انسانی حقوق کی حفاظت کے تئیں ان کے پاس کوئی مضبوط فریم ورک کا نہ ہونا، اور مختلف الخیال لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں کمی اور ایک Inclusive کانسٹیٹوشن کی ڈیزائننگ اور ڈرافٹنگ میں ناتجربہ کاری کو بھی بتایا گیا تھا، انسانی حقوق کا جو عالمی منشور ہے، اور جس پر بہت ساری مسلم حکومتوں نے بھی سائن کر رکھا ہے، اس کا اسلامائزیشن کیسے ہو، یا پھر اسلام کی روشنی میں اس کے حدود و ضوابط کیسے طے کئے جائیں، یہ ایسے موضوعات ہیں جو ہماری اکیڈمک تعلیم کا حصہ نہیں ہیں، ان موضوعات پر مجھے تھوڑا بہت سید قطب علیہ الرحمۃ کی تحریروں میں ملا ہے، لیکن چونکہ وہ بہتوں کے نزدیک مطعون ہوچکے ہیں، اس لئے مزید اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے یہاں کے جرائد و مجلات اٹھا کر دیکھ لیں، وہی گھسے پٹے موضوعات، متقدمین یا متخلفین کی کتابوں سے دس اقباسات اٹھائے اور ایک نیا مضمون تیار، تھوڑا بہت تنوع مجھے جماعت اسلامی کے پرچوں میں ملتا ہے، باقی اکثریت کی حالت بس کاپی پیسٹ والی ہے، زندگی کے اہم مسائل میں سے "حکومت" ایک مسئلہ ہے، ہمارے اکیڈمک ڈسکورس کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم کبھی اس کے بارے میں سوچتے نہیں ہے، اور اگر غلطی سے کسی مسلم جماعت کو کہیں ریاست کی تشکیل کا موقع مل بھی جائے تو وہ اس کی اسٹرکچر میں اسے اس قدر کنفیوزن ہوتا ہے کہ اس کے یہاں سے اعتدال رخصت ہوجاتا ہے، پھر اسلام کے نام پر ٹی وی توڑ دیا جاتا ہے، اور فقہ کے نام پر غیر مسلک کے لوگوں کے حقوق چھین لئے جاتے ہیں۔
میں کبھی کبھار بڑا کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہوں کہ علماء کہتے ہیں کہ اسلام میں تمام مسائل کا حل ہے، پھر ہمارے علماء "سیاست اور حکومت" جیسے بڑے مسئلے سے اتنی کیوں بے اعتنائی برت لیتے ہیں کہ وہ ایک حکمراں کو مکمل اختیار دے دیتے ہیں کہ وہ چاہے تو عوام الناس کو زبان ہلانے کی بھی اجازت نہ دے، اور یوں "ڈکٹیٹرشپ" عین اسلامی نظریہ ٹھہرے، دنیا کے ہر فلسفی نے "حکومت" پر کام کیا ہے، اور ہمارے یہاں چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ سے "آئیڈیل اسلامی حکومت" کے خد و خال نکھارنے کے فکر پر بس خاموشی، جو سیکولر اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو وہ اگر چاہیں بھی کہ اس پر کام کریں تو ان کی مجبوری ہے کہ وہ اس نظریہ کو "جدید نظریات" کے مقابل کمتر ہی ثابت کریں، اور اس کی "عملی تطبیق" کو ایک خواب کی دنیا قرار دیں، لیکن وہ ریاستیں جہاں پر اسلام "ریاستی مذہب" کے طور پر موجود ہے، وہاں کی یونیورسٹیوں میں اس پروجیکٹ پر پتہ نہیں کام ہوتا ہے، یا نہیں، میں کہہ نہیں سکتا، لیکن اگر ہوتا ہے تو دنیا کے سامنے کیوں نہیں آتا کہ یہ دیکھئے یہ ہے "ریاست کی تشکیل کا اسلامی نظریہ"، اس میں معیشت ایسے چلے گی، فرد اور ریاست کے یہ یہ حقوق ہوں گے، حاکم کا انتخاب ایسے ہوگا، اس کی Accountability کی جانچ ایسے ہوگی، عورتوں کے حقوق کیا ہوں گے، ان کے اوپر کیا ذمہ داریاں ہوں گی، تعلیم، ایمپلائمنٹ، برابری، آزادی، اخوت، مساوات، عدل، یہ سب کیسے اسلامی ریاست کا جزء ہوں گے۔۔۔وغیرہ وغیرہ
بہرحال سوچئے، غور کیجئے کہ طالبات کو تعلیم سے روکنے کا فیصلہ اسلامی اصول و ضوابط کی روشنی میں درست ہے؟ یا پھر اس فیصلے کے پیچھے دیگر کچھ عوامل تھے، اور اگر تھے تو کیا ایسا فیصلہ ناگریز تھا یا اس سے صرف نظر کیا جا سکتا تھا۔
عزیر احمد
