Some Accusations


 بعض الزام ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی مصنف یا رائٹر کے حالات، اور اس کے زمانہ کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے ہوتے ہیں، مجھے یاد ہے جب میں جے۔این۔یو میں تھا تو میں نے کسی مغربی رائٹر کی کتاب کا مطالعہ کیا تھا، اس کتاب میں "اسلامی شدت پسندی/د ہ شت گردی" کو موضوع خیال بنایا گیا تھا، اس میں اسلامی شدت پسندی کے بنیادی مآخذ اور مصادر علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی کتابوں اور ان کے فتاووں کو قرار دیا گیا تھا، اور علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کو شدت پسندی کا منبع تسلیم کیا گیا تھا۔
پھر مزید اسی کتاب میں بعد کے ادوار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ امام محمد بن عبد الوہاب علیہ الرحمۃ ابن تیمیہ ہی کے فکر سے متأثر تھے، اور اسی کے چلتے انہوں نے بھی ان مسلمانوں کی تکفیر و تفسیق کی جن کے اعمال میں کجی تھی، اور ان کے خون کے حلال ہونے کا فتوی دیا، پھر بعد علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کے فکر کے حامی دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک سلفیۃ اصلاحیۃ، اور ایک سلفیۃ جہادیۃ، سلفیۃ اصلاحیۃ کے امام علامہ البانی علیہ الرحمۃ اور دیگر سلفی علماء ہوگئے، جن کا ماننا تھا کہ بندوں کے اعمال کی اصلاح ہمارا بنیادی مقصد ہونا چاہئے، جب صالح معاشرہ ہوگا تو اسلامی نظام خود بخود قائم ہوجائے گا، جب کہ سلفیۃ جہادیۃ کے امام اور رہنما علامہ مودودی علیہ الرحمۃ، سید قطب، حسن البناء علیہم الرحمۃ وغیرہم ہوگئے، ان کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اسلامی حکومت کا قیام ہی بنیادی مقصد ہے، اور اس کے لئے "ج ہاد" ہی واحد راستہ ہے۔
سلفیہ جہادیۃ سے بہت ساری تنظمیں وجود میں آئیں، جس میں اخوان المسلمین، اور دولت اسلامیۃ جیسی تنظمیں سرفہرست ہیں، رائٹر کا یہ ماننا تھا کہ چاہے وہ سلفیہ جہادیۃ ہو یا سلفیۃ اصلاحیۃ، سب کے تار علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ سے جڑتے ہیں، اور سب کا بنیادی مقصد دنیا پر اسلام کا غلبہ ہی ہے، اچھا شاید یہی وجہ ہے کہ بہت دنوں تک جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کو انگریزی اخباروں میں "وہابی یا سلفی تحریک" ہی باور کرایا جاتا رہا ہے، جیسے ہم نے حال میں بھی دیکھا کہ جب حکومت ہند کے ذریعہ ایک مخصوص تنظیم پر پابندی لگائی گئی تو اخبارات میں اسے "سلفی/وہابی تنظیم" ہی لکھا گیا۔
اب یہ پورا بیانیہ کس قدر خلط مبحث پر مبنی ہے، علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کو براہ راست پڑھنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں، لیکن اس میں جو ایک قدر مشترک ہے وہ ہے ہر "تنظیم" کا اپنی "Legitimacy" ثابت کرنے کے لئے علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کے اقوال کا غلط انٹرپریٹیشن کرنا، اور مختلف حالات میں دئیے گئے ان کے فتاوے کا غلط جگہ پر استعمال کرنا ہے۔
سو میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب مطلب بر آری کے لئے مغرب کا ایک رائٹر علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ جیسے بڑے عالم دین کو مطعون کرسکتا ہے، بلکہ ان کو حالیہ دور کے کرائسس کے لئے ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے، تو محض آج کے عالم عربی کی سیاسی تصرفات کی وجہ سے ہم کسی عالم کے فتاوے کو عرب ممالک کی تباہی کی تباہی کی واحد وجہ کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ کیا یہ ایک محض پروپیگنڈہ نہیں ہے؟ یا ربیع عربی کے حالات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے؟
یہ بات یاد رہے کہ شدت پسندی کی "اصطلاح" ایک ایسا ٹول ہے جسے مختلف حکومتوں نے عوام الناس پر اپنے کریک ڈاؤن کی Legality ثابت کرنے کے لئے وضع کیا ہے، اب بہت حد تک یہ اخبارات و نیوزپیپر سے غائب ہوچکا ہے، اس کی جگہ مختلف قسم کے "وار" نے لے لیا ہے، اس لئے محض کسی خاص شخص کے تئیں "مقتدرہ" اور اس کے "پچھ لگوؤوں" کی نفرت کو "حقیقت" مان نہیں کر نہیں قبول کیا جا سکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے میاں کہ یہ سیاست ہے، کل کوئی دوسرا غالب آ گیا تو ڈسکورس بدل جائے گا، آج سے سو سال بعد جب تاریخ لکھی جا رہی ہوگی تو ممکن ہے آج کے مطعون کل کے محبوب بن جائیں، سو نظر اور نظریے پر جم کر لکھئے، مگر پروپیگنڈہ مت پھیلائیے، کتابوں سے غلطیاں تلاش کیجئے، اور اسے قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھئے، اور اس کے لئے "فہم سلف" کا پروسیس اپنائیے، لیکن اس فہم میں "توسع" ہونا چاہئے، "سلف" کے ایک مسئلے میں متضاد آراء بھی ہوسکتے ہیں۔ سو اس کو بھی دھیان میں رکھئے۔
اور ہاں علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کے سیاسی افکار بہت اعلی ہیں، "الخلافۃ و الملک" پر تھوڑی بہت نظر پڑی ہے، "خلافۃ النبوۃ" پر بھی شاید انہوں نے لکھا ہے، یہ ایسا ٹاپک ہے جو آج کے سلفی علماء سے کم ہی پڑھنے کا ملتا ہے، بلکہ ان کے ڈسکورس سے ہی غائب ہوچکا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب علماء اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے تاکہ انارکی نہ پھیلے، اور ہندوستانی علماء اس موضوع پر بات کرکے کریں گے بھی کیا؟ تعامل مع الحکام اور مبتدعۃ پر کریک ڈاؤن کے سلسلے میں ان کے بعض فتاووں کو سعودی عرب میں شئیر کرکے داد و تحسین تو حاصل کی جاسکتی ہے، مگر وہیں ہندوستان میں انہیں شئیر کرنے سے "مختلف گروہوں" کے درمیان آپسی نفرت پھیلانے کا الزام بھی لگ سکتا ہے، اس لئے جیسے "خلافت علی منہاج النبوۃ" پر بات نہ کرنا دور حاضر میں ایک اہم مصلحت ہے، اسی مصلحت کو دیگر مسائل میں بھی اپنا لیں، شاید دیگر مسالک و فرق میں اتحاد و اتفاق کی راہ ہموار سکے، تاکہ اس کے ذریعہ بڑے فتنے کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اب جب آپ اسی کے قائل رہیں گے کہ صرف آپ ہی حق پر ہیں، باقی جماعتیں بدعتی ہیں، اور جو لوگ ان کی طرف انتساب کریں ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا لازمی ہے، تو پھر ہندوستان میں آپ کے لئے تو بڑا مسئلہ ہوجائے گا، آپ کیسے دیگر مسالک کے احباب سے اس بات کی امید رکھیں گے کہ جب آپ پر ظلم ہوگا تو وہ آپ کا ساتھ دیں گے؟ آپ تو انہیں پہلے ہی غیر مان چکے ہیں۔
عزیر احمد

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی