پرانی کتابوں اور پرانے لوگوں کے تجربات کے مطالعہ کا الگ ہی نشہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ نا شراب جتنی پرانی ہو اس کا نشہ اتنا ہی دوبالا ہوتا ہے، کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ لکھنے کا فائدہ کیا ہے، پڑھتا کون ہے؟ پھر جب ان لوگوں کی کتابوں پر نظر پڑتی ہے جنہیں گزرے ایک دو صدی بیت چکی ہے، تب سمجھ میں آتا ہے کہ لکھنا ضروری کیوں ہے، لوگ چلے جاتے ہیں، ان کی لکھی ہوئی باتیں رہ جاتی ہیں، پھر آنے والی نسلیں انہیں پڑھ کر غور و فکر کرتی ہیں، حال سے ماضی کا موازنہ کرتی ہیں، اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر حال میں اس کے عدم وقوع کو یقینی بنانے نیز بہتر مستقبل کی تعمیر و ترقی کے لئے صدق دل سے کوشش کرتی ہیں، آپ عجائبات فرہنگ پڑھئیے، آپ الگ دنیا میں کھو جائیں گے، عجائبات فرہنگ یوسف خاں کمبل پوش کا سفرنامہ انگلستان ہے، یہ کتاب سب سے پہلے 1847 میں شائع ہوئی، اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اس دور میں کھوجائیں گے، اس دور کا ممبئی، اس دور کا ہندوستان، اس دور کا انگلینڈ اور دوران سفر مختلف دیگر ممالک کا نقشہ، اس زمانے کی اردو زبان، مرصع، مقفی، مسجع عبارتیں، اس زمانے کے کپڑے، اتنے پیارے اسلوب میں اس سفر نامے کو لکھا گیا ہے کہ قاری خود کو رائٹر کا ہم راہی محسوس کرنے لگتا ہے، وہ جہاں جاتا ہے اس کے ساتھ جاتا ہے، جہاں گھومتا ہے اس کے ساتھ گھومتا ہے، اس کتاب کا میں نے بہت پہلے مطالعہ کیا تھا، اچھا اس کتاب کی یاد کیوں آئی؟ اس کا ریزن یہ ہے کہ جب بھی میں کسی ایسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں جس کے کردار اور واقعات 1947 سے پہلے کے ہوں تو دل اپنے آپ کھینچا چلا جاتا ہے کہ یہ متحدہ ہندوستان کے واقعات ہیں، دو کتابیں ابھی حال ہی میں میرے زیر مطالعہ تھیں ان کتابوں میں بھی بہت حد تک 1947 سے پہلے کا حالات کا تجزیہ ہے۔
ایک گاندھی جی کی My Experiment With Truth, اور ایک انہیں کی نسل سے تعلق رکھنے والے راج موہن گاندھی جی کی Understanding The Muslim Mind، یہ دونوں کتابیں انسان کو وقت نکال کر ضرور پڑھنی چاہئے، انہیں پڑھتے ہوئے بہت ساری جگہوں پر آپ محسوس کریں گے کہ صرف صدی بدلی ہے، انسان کہاں بدلا ہے؟ صرف اس کے پہناوے میں اپگریڈیشن آیا ہے، نظریات تو اس کے پرانے ہی ہیں، وہی نسلی تفاخر، وہی وبائی مرض، وہی ہندو مسلم منافرت، وہی فسادات، دونوں کتابوں میں آپ کو تقریبا 1857 کے بعد کا ہندوستان نظر آئے گا، گاندھی جی پرفیکٹ نہیں تھے، اس کا اعتراف انہوں نے اپنی کتاب کے ابتدائی صفحات ہی میں کیا ہے، اس کتاب میں انہوں نے اپنی خامیاں، کمیاں اور کوتاہیاں بغیر شوگرکوٹ کئے لکھا ہے، جہاں غلطی کی ہے، اس کا اعتراف بھی کیا ہے، آٹوبائیوگرافی ان کا مقصد نہیں تھا، بس زندگی کے تجربات سے لوگوں کو روشناس کرانا تھا، وہ ایک ہندو تھے، مگر سچ اور حق کی تلاش میں انہوں نے مختلف مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا، انہوں نے اس کتاب میں خدا، ایمان، امید، سچائی، ناکامی، کامیابی، اور اخلاقیات غرضیکہ ہر اس موضوع پر بات کیا ہے جو انسان کے لئے اس کی ذاتی زندگی میں مشعل راہ بن سکتا ہے، نصابی کتابوں میں گاندھی جی کے کردار کے ساتھ انصاف نہیں ہے، گاندھی جی کو سمجھنے کے لئے براہ راست گاندھی جی کو پڑھنا ضروری ہے، گاندھی جی فلسفی آدمی تھے، اس کتاب میں ان کے بعض بعض جملے تو ایسے ہیں کہ انہیں بلا کسی شک و شبہ کے "اقوال زریں" کی کٹیگری میں رکھ سکتے ہیں۔
راج موہن گاندھی گاندھی جی کے پوتے ہیں، میں ان کے مضامین انڈین ایکپسپریس میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں، راج موہن جی گاندھی جی کے افکار و نظریات پر خوب لکھتے ہیں، اور حالات حاضرہ پر گاندھی جی کے فکر کو منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں، راج موہن جی کی یہ باقاعدہ پہلی کتاب ہے جو ابھی میرے زیر مطالعہ ہے، ان کی ایک اور کتاب بہت مشہور ہے "Revenge and Reconciliation: Understanding South Asian History"۔ راج موہن گاندھی جی کی کتاب کا بنیادی تھیم ہندو-مسلم اتحاد ہے، اس کتاب میں سر سید احمد خان سے لے ذاکر حسین تک تقریبا آٹھ مسلم مفکرین کے افکار و نظریات کا احاطہ کیا گیا ہے، اور بنیادی طور میں اس میں اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ مفکرین ہندو مسلم اتحاد کے تعلق سے کیا سوچتے تھے، اس کتاب میں جناح اور ابو الکلام آزاد علیہ الرحمۃ کو شامل کیا گیا ہے، کیونکہ ان دونوں کے بنا بر صغیر کا جغرافیہ ادھورا ہے، اور برصغیر کی مسلم انٹلکچؤلزم کی تاریخ بھی۔
تینوں کتاب کو مختصرا ایک ساتھ ذکر کرنے کی وجہ تینوں کا ماقبل آزادی کے حالات میں مشترک ہونا ہے، پہلی کتاب سفرنامہ ہے، اور دوسری دونوں کتابوں کو بائیوگرافی بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن دونوں کتابوں میں عموما تاریخیں بار بار گھوم پھر کر ساتھ آتی ہیں، یہ کتابیں اس زمانے کے حالات، واقعات، لوگ، پہناوا، نظریہ، تعلیم، نسلی تفاخر، اس دور کے ٹائم لائن سے ڈیل کرتی ہیں، اس طرح کی کتابوں کے مطالعے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کا درشٹی کون صحیح ہوتا ہے، خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے، یہ تو طے ہے کہ کسی بھی رائٹر یا مفکر کے تمام خیالات سے اتفاق ممکن نہیں ہے، لیکن مختلف المشارب اور مختلف المذاہب لوگوں کو پڑھنا اس وجہ سے بھی ضروری ہے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے، اور کچھ اچھی چیزیں سیکھ سکیں۔
عزیر احمد

