Protests in Iran


ایران میں جو مظاہرے ہورہے ہیں اسے ہم انقلاب کا نام تو نہیں دے سکتے، البتہ یہ ثورۃ اسلامی ریاست کے سلسلے میں غور و فکر کرنے والوں کو نیا زاویہ ضرور دے سکتا ہے۔ فرد اور ریاست کا تعلق کیسا ہو؟ کیا ریاست مورل پولیسنگ کے نام پر اپنی رعایا پر کسی مذہبی حکم کو بالجبر نافذ کرنے کا حق رکھتی ہے؟ یا مذہب کے معاملے میں فرد کو اس قدر آزادی دی جائے کہ حکومت بالکل بھی ان کے مذہبی معاملات میں انٹرفئیر نہ کرے۔
ایران ایک تھیوکریسی ملک ہے، یعنی وہاں جمہوریت بھی ہے، ووٹنگ بھی ہے، صدر بھی ہے، مگر ان سب سے اوپر ایک مرشد بھی ہے جو مذہبی معاملات میں شیعی فقہ کے مطابق ان کی رہنمائی کرتا ہے، حالیہ دنوں میں بالجبر حجاب کا قانون تنازعہ کا شکار ہے، ایرانی عورتیں رائٹ ٹو چوائس کی بات کر رہی ہیں، عورتوں کا اپنے حقوق کے تئیں یہ مظاہرہ ایران کے کئی شہروں تک پھیل چکا ہے، پولیس اور شہریوں میں مڈبھیڑ کی وجہ سے کئی افراد ہلاک بھی ہوچکے ہیں، ان مظاہروں کا انجام کیا ہوگا نہیں پتہ، لیکن یہ تو ہے کہ یہ مظاہرے ابھی اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ ایرانی نظام کا خاتمہ کر سکیں، اس سے پہلے بھی بہت سارے مظاہرے ہوچکے ہیں جیسے کہ دوہزار اٹھارہ میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے، ان مظاہروں نے بھی تشدد کی راہ اختیار کر لی تھی، اور ایرانی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف نعرے لگائے گئے تھے، لیکن ایران نے انہیں کچل دیا تھا، اس بار بھی ڈکٹیرشپ اور ملا استبداد کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں، اس مظاہرہ کو عورتیں لیڈ کر رہی ہیں، اور نظام کو للکار رہی ہیں، لیکن ان کی کامیابی کا ریشیو کم ہی ہے، ایرانی نظام نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ان مظاہروں کو ہوا دینے میں باہر کا ہاتھ ہے، اور ملک دشمن عناصر ملک میں انارکی اور لاقانونیت پھیلا دینا چاہتے ہیں۔
آج کے الشرق الاوسط میں بہت شاندار کارٹون شائع کیا گیا ہے، ایران مڈل ایسٹ میں آگ لگانا چاہتا ہے، لیکن وہ گھر میں لگنے والے آگ سے بے خبر ہے، کچھ یہی حالت ہوتی ہے جب آپ اپنے نظریے کو پوری دنیا میں تھوپ دینا چاہیں، مگر اپنے ہی گھر کو بھول جائیں۔
ایران نے پوری دنیا میں اپنی رافضی فکر پھیلانے کے لئے ہزاروں ملیشیا کھڑا کئے، سینکڑوں تحریکوں اور تنظیموں کو فائنانس کیا ہے، عرب مملکتوں کو تاخت و تاراج کردیا، ہنستا کھیلتا شام کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا، یمن آج بھی کراہ رہا ہے، ایران نے سب کچھ کیا جو وہ کر سکتا تھا، یہاں تک کہ اس نے نیوکلئیر پلانٹ تک لگا لئے، مگر اس نے وہ نہیں کیا جو کہیں نہ کہیں اس کے لئے لازمی امر تھا، یعنی اپنے شعب کی تربیت، دوسرے کے اصولوں پر نہ کرتا، اپنے ہی شیعی نظریات کے مطابق کردیتا، آج بچیاں حجاب سے آزادی مانگ رہی ہیں، تو سوچا جاسکتا ہے کہ آزادئ فکر کی آگ کہاں تک پہونچ چکی ہے، ظلم، جبر، اکراہ ان سب نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ جس سے اب نوجوان طبقہ بھاگنا چاہتا ہے، مذہب اس کے گلے میں وہ لٹکا ہوا پھندہ لگ رہا ہے جس کا سرا ایرانی نظام کے ہاتھ میں ہے، تباہ حال معیشت، مہنگائی کی مار، انفارمیشن کی بہتات، پڑوسیوں سے خراب تعلقات، قوم کی ناراضگی، الحادیت، اور لبرل افکار و نظریات کے پھیلاؤ کے درمیان ایرانی نظام کب تک سروائیو کرسکتا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا، لیکن مختلف مسئلوں کو لے کر ہونے والے مظاہروں اور اس کے Intensity کو دیکھ کر ایک بات تو حتمی ہے کہ ایرانی شعب ایرانی نظام کو لے کر مطمئن نہیں ہے، ایران نے جو بویا ہے، اسے دیر سویر کاٹنا ہی پڑے گا، کتنے گھروں کو اس نے تاراج کیا ہے، کتنے سروں سے اس نے آسرے چھینے ہیں، یوں ہی بغیر کسی احتساب کے ظلم کی کھیتی کب تک پھلتی پھولتی رہے گی۔ کبھی تو رات کی تاریکی چھٹے گی، اور صبح کا اجالا چاروں طرف اپنی روشنی بکھیرے گا۔
عزیر احمد 

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی