Destiny Disrupted


 گزشتہ کچھ دنوں پہلے جب میں جے۔این۔یو میں تھا، تو ہمارے ایک نہایت ہی قریبی ساتھی نے مجھے "Destiny Disrupted" کا اردو ترجمہ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا، اس کتاب کو مشہور افغان نزاد امریکی مؤرخ تمیم انصاری نے لکھا ہے، اصل کتاب کے کچھ ابتدائی صفحات میں بہت پہلے پڑھ چکا تھا، اور یہ میرے ریڈنگ لسٹ میں تھا، پھر جب مجھے پتہ چلا کہ اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے تو بہت خوشی ہوئی، کتاب کیا ہے، اسلامی تاریخ کا ایک مختصر تجزیہ ہے جو تقریبا ساڑھے تین سو صفحات سے زائد پر پھیلا ہوا ہے، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اسلامی تاریخ چودہ سو سالوں سے زائد عرصے پر محیط ہے، جسے اتنے مختصر صفحات میں نہیں سمیٹا جا سکتا، کتاب کا ترجمہ محمد ذکی کرمانی صاحب نے ’’قافلہ کیوں لٹا؟‘‘ کے نام سے کیا ہے، محمد ذکی صاحب مسلم اکیڈمی فار دی ایڈوانسمینٹ آف سائنس کے سربراہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اعزازی طور پر سینئر سائنس فیلو ہیں، سائنس اور اسلام کی جدید بحث میں ان کا نام کافی مشہور و معروف ہے۔
ذکی صاحب نے اس قدر شاندار ترجمہ کیا ہے کہ قاری کو پڑھتے ہوئے بالکل احساس نہیں ہوگا کہ وہ کسی کتاب کا ترجمہ پڑھ رہا ہے۔ اسلوب ، طرز نگارش، جملوں کا انتخاب، معنی و مفہوم کی صحیح ادبی ادائیگی اس کو ترجمہ کے بجائے اصل کا مقام دیتے ہیں، کتاب کے مشمولات ایسے ہیں کہ ایک باری آدمی پڑھنا شروع کرے گا، اور پڑھتا ہی چلے جائے گا، اس کا ہر صفحہ قاری کے علم میں اضافہ ہی کرے گا، اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف جنگوں، خلافتوں، اور حکومتوں کا مختصر تجزیہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جو انڈرکرنٹس تحریکیں پنپ رہی تھیں انہیں بھی احاطہ قلم میں لایا گیا ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ قاری کو اس کتاب کے تمام کانٹینٹ سے اتفاق ہی ہوگا، ایسا بالکل نہیں ہے، خود جب میں پڑھ رہا تھا تو بہت ساری جگہوں پر یہی لگ رہا تھا کہ رائٹر نے بعض تاریخی چیزوں کو محض اس وجہ سے اقرار کرلیا ہے کہ وہ مشہور ہیں، اس کی تحقیق کے لئے انہوں نے کوئی علمی اور سائنٹفک میتھڈ استعمال نہیں کیا ہے، خصوصا مشاجرات صحابہ کے بارے میں، یہاں تک کہ خود کتاب کے مقدمے میں ذکی صاحب بہت حد تک انصاف نہیں کرپائے ہیں، اور مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کی منجملہ وجوہات میں سے امام احمد رحمہ اللہ کا فتنہ خلق قرآن کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا، غزالی علیہ الرحمہ کا فلسفہ کے خلاف قلم اٹھانا، اس طرح سے کہ اسلامی علوم میں فلسفہ کو بالکل ہی بے وقعت گرداننا اور فلسفیوں کا راستہ بلاک کردینا شمار کیا ہے۔
کرمانی صاحب مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’واضح رہنا چاہئے کہ یہ فکر مکمل طور پر کوئی اجنبی اور خارج سے آئی ہوئی فکر نہ تھی، بلکہ فلسفیانہ طرز فکر کی روشنی میں دین اور اس سے ابھرتے ہوئے نت نئے سوالوں کو سمجھنے کی کوشش تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس اعتبار سے جب اسلام کی بنیادوں کی عصری تفہیم کرنی چاہی تو اس میں توحید کو وہی اہمیت حاصل رہی جو روایتی فکر سے عیاں سے تھا، البتہ فہم و تفہیم کے اس پورے عمل میں جہاں اللہ کی ذات اور صفات کی ابدیت کا مسئلہ کھڑا ہوا وہاں قرآن کی لافانیت بھی زیر بحث آئی۔ یہ سوال کھڑا ہوگیا کہ عقیدہ توحید کی اصلیت تو صرف خدائے لایموت کی لافانیت پر منحصر ہے اور کوئی دوسری شئے اس مقام پر فائز نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ قرآن کو بھی مخلوق ہونا چاہئے۔ اور مخلوق چونکہ ارتقا پذیر ہےاس لئے قرآن کے حقائق اور تعلیمات بھی ارتقاء پذیر ہیں۔ وقت کے علماء اور بالخصوص احمد بن حنبل نے اس مسئلہ کو موت و حیات کا مسئلہ بنا لیا، قید کئے گئے، زدوکوب اور تشدد کے شکار ہوئے، لیکن کیونکہ معاشرہ میں بااثر تھے، اس لئے ان کی مخالفت مقتدرہ کے لئے بڑی اہم تھی۔ ان کی مخالفت کی اصل ضرب عقل پر مشتمل اس طرز فکر پر پڑ رہی تھی جس نے اس نتیجہ پر پہونچایا تھا، اور یوں تسلیم کر لئے جانے کے نتیجے میں کہ قرآن مخلوق نہیں ہے کوئی بڑا مسئلہ تو حل نہیں ہوسکا البتہ عقل اور عقلی رویہ کا استعمال ابتدا دینی معاملات میں اور پھر بحیثیت مجموعی عام معاملات میں مقہورو مبغوض ٹھہرا۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’عملا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم و حکمت کی وہ تمام روایتیں جن کا ماخذ قران کریم نہ تھا، بلکہ وہ محض عقل کی کارفرمائیوں پر مشتمل تھیں، غیر اہم ہوتی چلی گئیں، اور فکر و تدبر قرآن کریم اور اس کےمتعلقات سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوجاتا۔ اسی صورتحال پر امام غزالی نے تنقید کرتے ہوئے جب ذہین افراد کو فرض کفایہ اور فرض عین کے وسعت پذیر تصور کی طرف متوجہ کرتے ہوئے طب اور زراعت کی اہمیت اور ضرورت بتائی تو وہ دراصل اپنے دور میں ہمارے زمانے کی سوشیالوجی آف نالج کی اسلامی بنیادوں کو مستحکم کر رہے تھے۔
امام غزالی کے ابتدائی رویہ کے نتیجہ میں بھی یہ علوم پنپ سکتے تھے، لیکن یونانی فلسفہ پر تجزیاتی تنقید میں وہ جس حد تک گئے اس سے دنیا کا ایک بڑا ذہین اور عظیم ترین مفکر مضحکہ خیزی کا باعث بن گیا، علت اور معلول میں تعلق کو جس منطق کی بنیاد پر انہوں نے مسترد کیا وہ آج کے کم عمروں کو مضحکہ خیز ہی نظر آتی ہے، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت کا عالم اسلام اس مضحکہ خیز دلیل پر آخر مطمئن کیسے ہوگیاـ‘‘
اس کے بعد صاحب مقدمہ ابن تیمیہ کو مشق ستم بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بات محض غزالی پر ختم نہیں ہوئی، ان کے کوئی ڈیڑھ سو سال بعد دمشق کے ابن تیمیہ نے احمد بن حنبل کی روایت کو آگے بڑھایا، جس کے مطابق قرآن کی تفہیم میں عقل کو نہیں بلکہ لفظی اور لغوی معنویت ہی کو اہمیت حاصل ہے، اور یہی طریقہ قرآن کے صحیح معنی تک پہونچنے کی ضمانت دیتا ہے۔
یہ اور اس جیسی بہت سی باتیں ہیں جن پر اہل علم گرفت کر سکتے ہیں، کوئی بھی مصنف یا رائٹر ذہن میں ایک خاکہ بناتا ہے، پھر وہ تاریخ سے انہیں واقعات و حوادث کو زیر بحث لاتا ہے جن سے وہ اپنا مقدمہ مضبوط کر سکے، اس کتاب کی ترویج و اشاعت میں جماعت اسلامی کے کچھ اہم ناموں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا، کیونکہ یہ کتاب بہت حد تک ان خیالات کا بھی چربہ ہے، جن سے جماعت اسلامی کسی حد تک اتفاق رکھتی ہے، اچھا جماعت اسلامی کا بھی بڑا عجیب مسئلہ ہے، تاریخ اسلام پر اس کی نظر زیادہ تر منفی زاویے پر ہی پڑتی ہے، اسے اسلام کی تاریخ میں ملوکیت کی وجہ سے صرف خونریزی ہی نظر آتی ہے، حالانکہ یہ بات وہ بھول جاتی ہے کہ کوئی بھی زمانہ خیر محض نہیں ہوسکتا ہے، اگر دنیا میں صرف خیر ہی رہنا ہوتا تو شر کو پیدا نہ کیا گیا ہوتا، تاریخ اسلام بھی خیر و شر کا مجموعہ ہے، نہ اسلام کا قافلہ اس طرح سے لٹا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس میں کچھ خیر بچا ہی نہیں، اور نہ ہی اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ امراء و ملوک سے غلطیاں نہ ہوئی ہوں، علماء عظام کے استدلال میں خامیاں نہ واقع ہوئی ہوں، اہم یہ ہے کہ یہ قافلہ چلتا رہا، متنوع النوع نظریات اس میں جگہ بناتے رہے ہیں، لیکن ہر نظریے کا حق بس یہی ہے کہ اسے کتاب و سنت کی طرف لوٹا دیا جائے ۔ پھر چاہے وہ قرآن کی تفہیم کا معاملہ ہو یا تشریع سازی میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینی حق، اس کے لئے خیر القرون کی طرف پلٹنا ہی ہمیں زیغ و ضلال سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
عزیر احمد

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی