لو کنت طیرا


 میری فیوریٹ کتابوں کی لسٹ میں دو نام اور جڑ چکے ہیں، ایک "زنزانۃ" اور دوسری "لو کنت طیرا"، دونوں کتابیں دکتور سلمان العودۃ کی ہیں، اور دونوں ہی نیٹ پر پی ڈی ایف کی شکل میں بآسانی مہیا ہیں، زنزانۃ کا موضوع گفتگو بہت حد تک انسانی عادات و اطوار ہیں، لو کنت طیرا یہ اصلا کتاب نہیں ہے، بلکہ یہ سلمان عودۃ صاحب کے ٹویٹس کا مجموعہ ہے جنہوں مختلف عناوین کے تحت جمع کردیا گیا ہے۔
کتاب کیا ہے، زندگی کے گزارنے کا فلسفہ ہے، اقوال زریں ہیں، پند و نصائح ہیں، خوش رہنے کے طریقے ہیں، ان کی زبان سادہ، عام فہم، مگر دانشورانہ ہے، لفظ لفظ لکھنے والے شخص کے وسیع مطالعہ ہونے کی گواہ ہیں،چھوٹے چھوٹے جملوں میں سمندر بھر دیا گیا ہے، عربی سے اگر تھوڑی بہت بھی واقفیت ہے تو ان کی دونوں کتابیں ضرور پڑھنی چاہئے تاکہ جب بھی کبھی آپ تاریک راتوں میں کہیں بھٹک جائیں، اندھیرا آپ کو نگلنے کے لئے تیار ہو، راستہ سجھائی نہ دے، تو شاید وہ نصیحتیں آپ کے لئے جگنو کا کام کر سکیں، یا پھر شاید اس ستارے کی طرح کام آجائیں جنہیں دیکھ کر ازمنہ وسطی میں راہی راستے ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔
دکتور سلمان عودہ کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں، ان کی یہ کتابیں آپ کو غیر منہجی ہرگز نہیں بنائیں گی، ہاں بس آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیں گی کہ سلمان عودۃ جیسے عالی دماغ شخص کو سلاخوں کے پیچھے نہیں ہونا چاہئے تھا، شاید انہیں "ٹکراؤ" کا راستہ نہیں اختیار کرنا چاہئے تھا، وہ "سیاست" سے دور رہ کر "امت مسلمہ" کو غور و فکر کا ایک نیا زاویہ دے سکتے تھے، مگر ہائے بد قسمتی کہ شب و روز اب انتظار میں کٹتے ہوں گے کہ کبھی وہ صبح آئے گی اور جب وہ سورج کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے، بہرحال کسی بھی شخص کے تمام خیالات سے اتفاق ضروری تو نہیں، مگر یہ ہے کہ میں اظہار آزادی رائے کا حامی ہوں، یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک کسی بھی شخص کو محض اس وجہ سے بلاک یا انفرینڈ نہیں کیا ہے کہ مجھے اس کی رائے نہیں پسند، میرا ماننا ہے کہ آپ کا مطالعہ متنوع ہونا چاہئے، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ رد تقلید کے دلائل تو آپ نے رٹ لئے ہوں، لیکن تقلید کے دلائل کبھی آپ کی نظروں سے بھی نہ گزرے ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ "العدالۃ الاجتماعیۃ" بھی میری لسٹ میں شامل ہے، جس کا مجھے مطالعہ کرنا ہے، میری کوشش رہتی ہے کہ مطالعے کی عادت مجھ سے چھوٹے نا، اچھا بڑی پرابلم تو یہ ہے کہ ہمارے پڑھنے والے بھائی بھی پڑھتے نہیں ہیں، الٹا ایک اصول بنا رکھے ہیں کہ غیر منہجی لوگوں کی کتابیں نہیں پڑھنی چاہئے، یہ بہت حد تک طلباء پر تو اپلائی کیا جا سکتا، مگر ان لوگوں کا کیا جو راسخین فی العلم ہیں؟ جو اب گمراہ نہیں ہوسکتے؟ انہیں پڑھنے سے کیا دقت ہے؟ علامہ مودودی علیہ الرحمۃ نے اگر خلافت و ملوکیت لکھ دیا تو کیا اب ان کی ساری کتابیں ہی رد کردی جائیں؟ کیا پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے "رسوخ فی العلم" میں شک ہے؟ میں اس نظریے کے خلاف ہوں کہ محض اس وجہ سے کسی اور کی کتابیں یا تحریریں پڑھنے سے روکا جائے کہ رائٹر میرا ہم خیال یا ہم مسلک نہیں ہے، پھر "خذ ما صفا و دع ما کدر" کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔
اچھا میرے ساتھ پریشانی کیا ہے کہ مجھے بک ریویو لکھنا نہیں آتا، میں نے دو تین کتابوں کے ریویو لکھنے کی کوشش کی، مگر ہر بار ادھورا ہی چھوڑ دیا، اب یہی دیکھئے نا ریویو لکھتے لکھتے قلم کہیں اور بھٹک گیا، لیکن میرا قلم بھی آزاد ہی ہے، روکنا کیوں کر ہو؟ ہاں اب ضرور سنجیدگی کے ساتھ سوچ رہا ہوں کہ جن کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، کوشش کی جائے کہ مختصرا اس کا ریویو سوشل میڈیا پر ڈال دیا جائے، اس کا فائدہ کسی اور سے زیادہ خود مجھے ہوگا، اور شاید کسی طالب علم کو کوئی کتاب اچھی لگ جائے، اسی بہانے وہ بھی پڑھ لے۔
عزیر احمد

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی