عورتوں کا مسجد میں جانا (قسط دوم)


میرے سابقہ پوسٹ پہ خوب بحثیں ہوئیں، مثبت بھی، منفی بھی، میں اسی کے تعلق سے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ بھائی دیکھئیے "سماجی قدریں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں"، ایک دور تھا کہ عورت کا گھر سے باہر نکلنا غلط تصور کیا جاتا تھا، اب بھی ہے، بلا ضرورت عورت کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے، مگر وقت اور حالات اس طریقے سے نہیں رہے کہ اب ہم عورتوں کو مستقل گھر میں بٹھائے رکھ سکتے ہیں، تعلیم و ترقی کا دور اس قدر ذہنوں پہ غالب آگیا ہے کہ ہم خود اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو اچھے سے اچھے اسکول اور کالج میں داخل کرانا چاہتے ہیں، اور کراتے بھی ہیں، میں دہلی میں چار سالوں سے ہوں، میں نہیں جانتا ہوں کہ کوئی بھی فرقے یا مسلک کا بندہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم نہیں دلانا چاہتا ہے، تو میرا صرف اتنا کہنا ہے کہ جب ہم تعلیم کے خاطر مخلوط اداروں میں بھیج سکتے ہیں تو پھر اللہ رب العالمین کے گھر میں جانے سے کس منہ سے منع کرتے ہیں، باوجود یکے کہ مسجد میں مرد و زن کے اختلاط کا کوئی امکان بھی نہیں ہوتا ہے، یہاں تک کہ دیکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا ہے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہ لڑکیاں جو مخلوط اداروں میں پڑھنے جاتی ہیں، انہیں مسجدوں لے آیا جائے تاکہ وہ دین اسلام کی کچھ باتوں جو سیکھ لیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ پورے ہندوستان کی مساجد میں عورتوں کا انتظام ہو، نہیں بالکل نہیں، اس پورے پوسٹ سے میرا مقصود و مراد وہ شہر ہے جہاں عورتیں بازار جاتیں ہیں، گھروں سے باہر نکلتی ہیں، تعلیم حاصل کرتی ہیں، گاؤں دیہات یا جہاں تعلیمی ترقی کم ہے وہاں عورتوں کا گھر ہی پہ نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، لیکن پھر بھی اگر ان کے لئے بہتر انتظام کیا جاتا ہے، اس طریقے سے کہ اگر وہ مسجد جائیں تو راستوں میں انہیں کوئی پریشانی نہ لاحق ہو، تو وہ ضرور جا سکتی ہیں، کم سے کم ساری نمازوں میں نہ سہی جمعہ میں تو جا سکتی ہیں۔
بعض لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے تعلق سے اس بات کو نقل کر رہے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عورتوں کو مسجد میں آنے منع کردیا تھا، بھائی کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قیامت تک کے لئے منع کردیا تھا، یا ان کے فیصلے کو وقتی ضرورت پہ محمول بھی کیا جاسکتا ہے جب کہ ہمارے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے، ((لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، رواہ مسلم))، اتنے صریح حکم کے بعد ہم اور آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے؟
بھائی دیکھئیے آپ وقت اور حالات کے اعتبار سے  اگر پالیسیاں نہیں بدلیں گی تو انجام بھلائی نہیں ہوگا، اسلام کے احکام و فرامین کا Re-Interpretation اگر وقت کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھ کر نہیں کیا جائے گا تو بہت ساری پریشانیاں جنم لیں گی، اور پھر عورتوں کے تعلق سے ہمارا مسلم معاشرہ جو افراط و تفریط کا شکار ہے، اسے اگر ختم نہیں کیا جائے گا تو عورتیں خود ہی آواز بلند کرنے لگیں گی، اسلام نے عورتوں کو تمام مذاہب عالم میں سب سے زیادہ حق دیا ہے، اگر عدل کے ساتھ یہ حق ہم انہیں نہیں عطا کریں گے تو وہ خود ہی چھیننے لگیں گی، پھر چاہے وہ جائز طریقے سے ہو یا ناجائز۔
اب یہی دیکھئیے عورتوں کو مسجد میں جانے کا مسئلہ، خواہ مخواہ کچھ لوگ ضد پہ اڑے ہوئے ہیں، اور اسے ناجائز اور حرام گردان رہے ہیں، جب کہ ناجائز اور حرام ہونے کی جو علت ہے یعنی "فتنہ" اسے ختم کردیجئے، مسئلہ حل ہوجائے گا، مسجدوں میں ایسا انتظام کیجئے کہ فتنے کا اندیشہ ہی نہ رہے، حرام، ناجائز، مکروہ کہہ کے چھٹکارا تھوڑی حاصل کیا جاسکتا ہے،  جب ضرورت ہوتی ہے تو ہمارے ہی علماء کرام سارے اندیشوں کو بالائے طاق رکھ کے عورتوں کو مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کے نام پہ سڑکوں پہ اتار لاتے ہیں، اور جب ان کو بھی مسجد میں حصہ دینے کی بات آتی ہے تو "فتنے" کا اندیشہ آڑے آجاتا ہے، یہ تو پھر انصاف نہ ہوا.
ہمارے ہی علماء کرام اور ایلیٹ طبقے کی بچیاں مخلوط درسگاہوں میں پڑھتی ہیں، جامعہ، علیگڑھ، جے.این.یو، لکھنؤ یونورسٹی، مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی و دیگر ملک کی یونیورسٹیوں میں اس کا بعینہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، اس وقت سارے اندیشے کہاں چلے جاتے ہیں، ہمارے علماء کرام متفقہ طور پہ کیوں نہیں فتوی نکال دیتے ہیں کہ ان جگہوں پہ مسلم بچیوں کا پڑھنا حرام ہے؟ عورتیں بازار جائیں، یونیورسٹی جائیں، کالج جائیں، تب نہیں فتنہ، مسجد جائیں تو فتنہ، یہ کون سی بات ہوئی، فتنہ کا جو سبب ہے اسے ختم کیجئے نا، ایسا تھوڑی ہوتا ہے کہ اگر انسان بیمار ہے تو اس کی بیماری ختم کرنے کے لئے اسے کا گلا ہی دبا دیا جائے، اگر مسجد میں عورتوں کے آنے سے فتنے کا اندیشہ ہے تو ایسا طریقہ اپنائیے کہ فتنے کا اندیشہ باقی ہی نہ رہے، یہ کون سی بات ہوئی کہ ڈائریکٹ ان کو مسجد سے ہی روک دیا جائے، بعض لوگ جو قیاس مع الفارق کی بات کر رہے ہیں تو یہاں قیاس سرے سے ہے ہی نا، میرا سیدھا سادہ کہنا یہ ہے کہ ایک ناجائز کام کو جب آپ لوگ برداشت کرسکتے ہو تو جائز کام سے روکتے کیوں ہو؟
یہ بات یاد رکھئیے کہ اگر ہم عورتوں کو ان کا جائز حق نہیں دیں گے تو اس کا لاوا دوسری شدت کے نتیجے میں پھوٹے گا، وہ مکمل طریقے سے آزادی نسواں کی حامی بن جائیں گی، جیسے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں "طلاق" کے نام پہ ہوا بھی ہے، "ایک مجلس کی تین طلاق" کے خلاف جو عورتیں آگے آئیں وہ کوئی آسمان سے تو اتر کے تو آئی نہیں تھیں، وہ اسی زمین کی مخلوق تھیں، ان کے ساتھ دین اور اسلام کے نام پہ ظلم ہوا تو وہ اسلام ہی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں، اور پھر انہیں کے توسط سے شریعت میں مداخلت کی راہ بھی ہموار ہوئی، اب سارا الزام ان عورتوں پہ ڈال دینے سے مسئلہ تھوڑی نہ حل ہونے والا۔
یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ کسی ایک چیز میں شدت Ultimately اس کے مخالف چیز میں شدت کی طرف لیجاتی ہے، اگر آپ حد سے زیادہ لبرل ہیں، تو جو آپ کے مخالف ہوں گے وہ حد سے زیادہ مذہبی ہوجائیں گے، وبالعکس، اسی طرح اگر آپ حد سے زیادہ عورتوں پہ Restriction لگائیں گے، انہیں دین اسلام کے نام سے مسجد جانے بھی روکیں گے، تعلیم حاصل کرنے سے روکیں گے، مہینوں مہینوں گھر سے باہر نکلنے سے روکیں گے، تو انہیں گھٹن ہونے لگے گی، پھر وہ آزاد فضاؤں میں سانس لینا چاہیں گی چاہے اس کے لئے انہیں  دین اسلام کے دیوار ہی کو کیوں نہ منہدم کرنا پڑے، اس لئے عورتوں کے معاملے میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے،
عزیر احمد
مئی ۲۰۱۸
ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی