میں نے جب سے ہوش سنبھالا، اپنے گاؤں میں عید کے دن بہت ہی رونق دیکھی، اٹھائیسیویں رمضان سے ہی پورے گھر کی صفائی شروع کردی جاتی ہے، کتابوں سے لیکر سامانوں تک سب ایک ترتیب سے لگا دیئے جاتے ہیں، فرش دھو دھو کے چمکا دیا جاتا ہے، نئے نئے چادر بچھا دئیے جاتے ہیں، عید کے چاند کا اعلان ہوتے ہی پورے گاؤں میں خوشی کا ماحول دوڑ جاتا ہے، ہمارے گھر کی عورتیں مختلف پکوان کے لئے سامان اکٹھا کرنا شروع کردیتی ہیں، تاکہ عید کے دن سوئیاں، پوریاں، مٹر، گوشت، بریانی وغیرہ مہمانوں کے سامنے ان کی حسب منشأ پیش کیا جاسکے، زبانوں پہ دعاؤں کا ورد بھی رہتا ہے، پھر فجر کی نماز ختم ہوتے ہی گاؤں کے نوجوان عیدگاہ کا رخ کرلیتے ہیں، جہاں وہ اس کی صفائی، ستھرائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور چونے کے ذریعہ "عید مبارک" وغیرہ بھی لکھ دیتے ہیں، راستوں پر عید گاہ کی طرف جانے کے لئے تیر کا نشان بھی بنا دیتے ہیں، مسجد سے دریاں اور مائک وغیرہ اٹھا کے لاتے ہیں، اس کے ساتھ ہی عورتوں کے لئے پردے کا انتظام کرتے ہیں، اور جہاں نماز پڑھی جانی ہے، وہاں عورتوں کے لئے ایک خاص حصے کو چاروں طرف سے پردے سے اس طرح گھیر دیتے ہیں، کہ وہ نظر نہ آ سکیں۔
پورے گاؤں میں خوشی کا جو ماحول ہوتا ہے وہ بالکل انوکھا ہوتا ہے، سڑک کے چاروں طرف دکانیں صبح سے ہی سج جاتیں ہیں، بچوں کی قطار صبح سے ہی ان دکانوں پہ لائن لگائے کھڑی رہتی ہے، پھر نماز کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے کہ لوگ جوق در جوق عیدگاہ کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں، مرد، عورت، بوڑھے، بچے، غرضیکہ گاؤں کا ہر فرد، دیکھتے ہی دیکھتے تھوڑی دیر میں پورا گاؤں خالی ہوجاتا ہے، اگر اس وقت کوئی گاؤں میں گھس جائے تو اسے یہ لگے گا کہ وہ کس ویرانے میں آگیا ہے، نماز کے ختم ہونے کے بعد مرد حضرات اس وقت تک مصلے پہ بیٹھے رہتے ہیں جب تک عورتیں چلی نہیں جاتیں ہیں، کوئی بھی نوجوان پہلے اٹھ کے نہیں جاتا ہے سوائے بچوں کے تاکہ راستے میں عورتوں اور مردوں کا اختلاط نہ ہوسکے، اگر کوئی چلا بھی جاتا ہے تو دیگر نوجوان بعد میں اس کی سرزنش کرتے ہیں، اگر چہ اس کا بھی کہنا ہوتا ہے کہ ارے یار گاؤں کی سب عورتیں ہماری بہنیں بیٹیاں ہیں، کوئی تائی، کوئی چچی، کوئی پھوپھی، کوئی ممانی، کوئی امی، کیا ہوگیا اگر میں اٹھ کے چلا بھی گیا، اور ویسے بھی کون سا انہیں دیکھنے گیا، میں تو بس راستے پر سے دوسری جگہ چلا گیا، تو دوسرے لوگ اسے کچھ یوں سمجھاتے ہیں کہ نفس مسئلہ یہ نہیں کہ تم اٹھ کے چلے گئے، مسئلہ یہ ہے کہ تمہارے ذریعہ ایک غلط رواج جڑ پکڑ جائے گا، ہر کوئی اٹھ کے جانے لگے گا، جس سے ہمارے ہی گھر کی عورتوں کو راستے میں چلتے ہوئے پریشانی ہوگی۔
اتنی لمبی چوڑی تمہید کا مقصد مجھے یہ بتانا ہے کہ میں نے اپنے گاؤں کا یہ جو منظر دیکھا تھا، اس اعتبار سے مجھے لگتا تھا کہ پورے ہندوستان میں سارے گاؤں کا منظر تقریبا ایسا ہی ہوگا، عید کی خوشیاں ایک دوسرے کے ساتھ خوب شئیر کی جاتی ہوں گی، عورتیں، مرد، بچے، غرضیکہ ہر کوئی عید کی نماز میں شریک ہوتا ہوگا، لیکن جب میں نے دہلی میں رہنا شروع کیا، پھر مجھے معلوم ہوا کہ یہاں عورتوں کو عیدگاہ میں جانے کا چلن نہیں ہے، میں نے اسے تنگئی داماں کی شکایت پہ محمول کیا کہ شاید جگہ کی قلت کی وجہ سے عورتوں کو عیدگاہ میں نہیں لایا جاتا ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا ہندوستان کی بیشتر جگہوں پہ ہوتا ہے جہاں عورتوں کو عیدگاہ میں جانے کا حق نہیں دیا جاتا ہے۔
اب ایسا کیوں کیا جاتا ہے، باوجود یکے کہ اللہ کے رسول نے عورتوں کو عیدگاہ میں لانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
“أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلاَّهُنَّ قَالَتِ امْرَأَةٌ يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ قَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا”
ہمیں عیدین میں جوان اور حائضہ عورتوں کو عید گاہ لے جانے کا حکم دیا گیا، وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعا میں شریک ہونگی اور حائضہ عورتیں مصلیٰ (نماز کی جگہ ) سے الگ رہیں گی ایک عورت نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہوتو ؟ آپ نے فرمایا : چاہئے کہ اسے اس کی کوئی ساتھی اپنی زائد چادر دیدے ۔
(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري 1/ 99)
اتنی صریح اور واضح حدیث کے باوجود عورتوں کو منع کیوں کیا جاتا ہے سمجھ سے پرے ہے، بھائی تیس دن کا روزہ آپ رکھتے ہو، تو آپ کو عیدگاہ میں جاکے نماز پڑھنے کا حق ہے، نماز کے بعد ایک دوسرے سے گلے لگنے اور مبارکبادی دینے کا حق ہے، راستوں پہ چلتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں شئیر کرنے کا حق ہے، تو کیا عورتوں کو یہ حق نہیں ہے، کہ وہ بھی عیدگاہ جائیں، ایک دوسرے سے ملیں، ایک دوسرے کو مبارکبادی دیں، مل بانٹ کے خوشیاں شئیر کریں، آخر انہوں نے بھی تو مکمل روزہ رکھا ہے، پھر انہیں اس حق سے محرومی کیوں؟ میں تو بغیر عیدگاہ میں جائے نہ تو عید کی نماز کا تصور کرسکتا ہوں، اور نہ ہی عید کی خوشی کی، اللہ رب العالمین مسلمانوں کے لئے دو خوشی کے دو دن مقرر کئے ہیں، آپ ان دنوں میں تو کم سے کم عورتوں کو خوشی منانے دیں، جس طرح مردوں کا حق ہے کہ وہ عید کی نماز کے لئے عیدگاہ میں جائیں اسی طرح عورتوں کا بھی حق ہے، اور ان کو حق سے صرف فقہی موشگافیوں کی بنا پہ محروم رکھنا سراسر ظلم ہے۔
اسلام صرف مردوں کے لئے نہیں آیا ہے، اور نہ ہی عورتوں کے مخصوص مسائل کے سوا احکام و فرامین میں اسلام نے "مرد و عورت" کی تفریق کی ہے، جہاں بھی حکم دیا، اس میں مرد و عورت دونوں کو شامل کیا، کچھ عورتوں کی غلطیوں کی وجہ سے پوری عورت ذات کو مسجد و عیدگاہ سے روک دینا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے، یہ بات ذہن میں رکھئیے کہ اگر کچھ عورتیں مسجد یا عیدگاہ میں آنے کا غلط استعمال کرتی ہیں، تو یہ ان کی جہالت، ان کی نادانی یا ان کے اولیاء کی جانب سے چھوٹ کی وجہ سے ہے، اسے بنیاد بنا کر مطلق حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ عورتیں مسجد یا عیدگاہ میں آئیں ہی نہ، بہت ساری عورتیں ہوتی ہیں جو مردوں سے بھی زیادہ پاکباز ہوتی ہیں، جو جمعہ میں امام کا خطبہ سننا چاہتی ہیں، عیدگاہ میں سارے مسلمانوں کے ساتھ نماز اور دعا میں شریک ہونا چاہتی ہیں، انہیں آخر ہم کس بنیاد پہ روکتے ہیں جب کہ شارع نے اس سلسلے میں ممانعت کا کوئی صریح حکم بھی نہیں دیا ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی یاد رکھئیے کہ اگر کسی زمانے میں عورتوں کا مسجد یا عیدگاہ میں نہیں جانا پایا جاتا ہے تو وہ زمانہ ہمارے لئے دلیل نہیں ہوسکتا، کیونکہ بہت ممکن ہے اس زمانے کے سماجی حالات ہی ایسے رہے ہوں جس میں عورتوں کو بہت ساری چیزوں سے صرف سماجی روایات کی وجہ سے روکا گیا ہو، جیسے کہ ایک دور تھا عورتوں کی تعلیم کا ہمارے یہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا، خدا خدا کرکے وہ کفر ٹوٹا، تو اب عورتوں کو تعلیم نہ دلانے کے لئے وہ دور دلیل نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ آج کے دور میں اگر کوئی کہے کہ عورتوں کو تعلیم نہیں دلایا جاسکتا تو شاید لوگ اسے جوتے بھی لگائیں، عورتوں کو مسجد میں نہ جانے دینا، انہیں عیدگاہ سے روکنا، یہ سب غلط چیزیں جو مسلمانوں میں جڑ پکڑ گئی ہیں، اس نا انصافی کے خلاف اگر خود علماء کرام ہی آواز نہیں اٹھائیں گے تو پھر لبرل، فیمنسٹ اور دہریے ٹائپ کے لوگ آواز اٹھائیں گے، اس وقت ان کی آوازوں کا نتیجہ اسلام کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں ہوگا.
اب کوئی صاحب یہ نہ کہیں کہ عورتوں کے "مسجد" یا "عیدگاہ" جانے سے کون سے مسلمانوں کے مسائل حل ہوجائیں گے، یا یہ کوئی اتنے بڑے مسائل تو ہیں نہیں کہ ان پہ اپنی توانائی صرف کیجائے، تو عرض یہ ہے کہ حضور کسی چیز کی شروعات ہمیشہ اکائی سے ہوتی ہے، چھوٹی چھوٹی چیزیں مل کے بڑی بن جایا کرتی ہیں، عورتوں کا مسجد یا عیدگاہ میں جانا بھلے ہی آپ کی نظر میں کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو، مگر یہ اس ذہنیت کو تیار کرنے میں بہت ہی معاون اور مددگار ہے جو ذہنیت عورتوں کو مردوں سے کمتر سمجھتی ہے، یہ پرسیپشن Creat کرتا ہے کہ عورت مرد کے پاؤں کی جوتی ہے، یا وہ باپ کے سر پہ بوجھ ہے، اسی طرح یہ اس پروپیگنڈے کو بھی پھیلانے کافی ذمہ دار ہے کہ اسلام عورت کے تئیں Bias ہے، اس لئے اس مسئلے کو حل کرنا گویا اسلامی سماج کے ایک بڑے مسئلے کو حل کردینا ہے۔
عزیر احمد
مئی ۲۰۱۸
