عورتوں کا مسجد میں جانا


 ایک بھائی کا کہنا ہے ہرشہر کی چند بڑی مساجد میں عورتوں کے لیے بہترین اور مرتب انتظام قوم مسلم کے اندر مذہبی جہالت مٹانے میں معاون ہوسکتاہے۔
میں اس کے اس خیال سے بالکل متفق ہوں، یہ مبنی بر حق ہے، اور وقت کی اہم ضرورت بھی، کم سے کم شہروں کے اعتبار سے یہ ضروری امر ہے۔
بھائی جب ہم شہروں میں اپنی بہنوں، بیٹیوں اور بچیوں کو مخلوط درسگاہوں میں تعلیم دلا سکتے ہیں، تو صرف انہیں فتنہ کے ڈر سے مسجد جانے سے روکنا چہ معنی دارد.؟
میں دہلی کی بات بتاؤں، بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر، شاہین باغ وغیرہ کے علاقوں میں رہنے والی تقریبا  ۸۰ پرسنٹ عورتیں خواہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتی ہوں گھر سے باہر ضرور نکلتی ہیں، چاہے بازار کے بہانے ہی کیوں نہیں، پھر اسی طریقے سے ہر گھر کی بہن بیٹیاں تقریبا جامعہ ملیہ یا دیگر مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کرتیں ہیں، اس وقت ہماری رگ حمیت نہیں پھڑکتی ہے، ہماری آنکھوں میں خون نہیں اترتا ہے کہ ہماری ملت کی بیٹیاں نامحرم مردوں کے ساتھ پڑھنے پر مجبور ہیں، لاؤ ان کے لئے الگ ادارے قائم کردیں، ان کے لئے انسیٹیوشنز اور کالجز بنادیں، ان کے بازار کا الگ انتظام کردیں، ہاں ہمارا چہرہ اسی وقت غضب ناک ہوتا ہے جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عورتوں کو مسجد میں لانے کی بات کر رہا ہے۔
عورتوں کو مسجد جانے سے کیوں روکا جاتا ہے مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی، بھائی عورتوں کے لئے الگ اور بہتر انتظام کرو نا، اگر اللہ رب العالمین نے مردوں کے لئے مسجد بنانے کی طاقت دے رکھی ہے، تو اس کی تعمیر کے وقت صنف نازک کا بھی خیال رکھ لیا جائے تو کیا ہی بہتر ہو، ان کے لئے بیسمنٹ میں جگہ بنادو، یا اوپری منزل پہ ان کا انتظام کردو، اس طریقے سے کہ راستے جدا جدا ہوں، عورتوں اور مردوں کا اختلاط نہ ہوسکے، کم سے کم وہاں جا کے وہ دین کی کچھ باتیں تو سیکھ لیا کریں گی، جو ان کے تربیت نفس، تربیت اولاد، دنیاوی اور اخروی زندگی و دیگر امور خانہ داری کو بہتر بنانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوں گی۔
اگر کسی بھائی کو یہ جاننا ہے کہ مساجد میں عورتیں کے لئے الگ انتظام کیسے کیا جاسکتا ہے تو وہ جامعہ نگر میں واقع رحمانی مسجد کا معائنہ کرلے، اسے بخوبی سمجھ میں آجائے گا، میں جب شروع شروع میں دہلی میں آیا تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے رحمانی مسجد میں جایا کرتا تھا، مجھے تو تین چار جمعہ تک معلوم ہی نہیں ہوپایا کہ اس مسجد میں عورتیں بھی جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے آتیں ہیں، پھر ایک دن مجھے ایک ساتھی نے بتایا کہ اس مسجد میں عورتوں کے لئے بھی بہترین انتظام کیا گیا ہے، ان کا بیسمنٹ میں اس طریقے سے انتظام ہے کہ مردوں کو ان کی ہوا تک نہیں لگ سکتی ہے، دیکھنا تو دور کی بات ہے، بھئی اس قسم کے انتظامات کیوں نہیں ہر مسجد میں کئے جاسکتے ہیں؟
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جب "عورتوں پہ مسجد کے دروازے بند کردئیے جائیں گے تو وہ اپنے حصے کا خدا مزاروں میں ڈھونڈنے لگیں گی"، آج جب مزاروں پہ جائیے تو وہاں مردوں سے زیادہ عورتوں کا جھمگٹا نظر آئے گا، یاد رکھئیے عورتوں کو جاہل رکھنا گویا پوری آنے والے نسل کو جاہل رکھنے کے مترادف ہے، علم صرف کتابوں کے ذریعہ نہیں حاصل ہوتا، خصوصا دینی علم، بلکہ علماء کے ذریعہ دروس و محاضرات اور وعظ و نصائح کا بھی سننا نہایت ضروری ہے، کہتے ہیں کسی ایک موضوع کے تعلق سے اس سبجیکٹ کے ایکسپرٹ کے ذریعہ ایک لیکچر سننا کئی مضامین پڑھنے کے برابر ہے، عورتیں جب مسجد میں جائیں گی، اجتماعیت کے روح پرور مناظر کا مشاہدہ کریں گی، علماء کے خطبوں کو بغور سنیں گی، تو اس کا اثر ان کی ذاتی زندگی پہ ضرور ہوگا، بھلے ہی کم کیوں نہ ہو، مگر جب وعظ و نصیحت سن کے گھر واپس آئیں گی تو اپنے بچوں کو ضرور بتانے کی کوشش کریں گی کہ صحیح کیا ہے، غلط کیا ہے، اسلام کیا ہے، غیر اسلام کیا ہے۔
انسانیت کی اس آدھی آبادی کو مساجد سے روک دینا ان کے اوپر زبردستی کا مذہبی ظلم کرنا ہے، آج کے دور میں فتنہ کی بات بالکل بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے، اس لئے کہ فتنہ تو ہر جگہ پایا جاتا ہے، گھر، روڈ، کھڑکی، دروازے، بازار، اسکول و کالجز، مدارس و معاہد، تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہوا کہ ان سب جگہوں پہ ان کے جانے کو تو صرف نظر کردیا جائے، اور فتنے کے لئے صرف ایک جگہ یاد رہ جائے "مسجد".
اللہ رب العالمین نے "غض بصر" کا حکم صرف عورت کو نہیں بلکہ مرد کو بھی دیا ہے، اگر کوئی شخص عورتوں کے مسجد میں آنے سے فتنہ میں مبتلا ہوجاتا ہے باوجود یکے کہ عورتوں کے لئے الگ انتظام کیا گیا ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنے ایمان پہ غور کرے، کیونکہ بھائی مسجد میں بیٹھ کے کسی عورت کا تعلق سے غلط تصور لانا ذہنی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔

عزیر احمد
مئی ۲۰۱۸
ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی