میں فلمیں عموما کم دیکھتا ہوں، لیکن جب کسی فلم کے بارے میں اچھا پڑھتا ہوں، تو ضرور دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا کبھی سینما کمرشیل مقاصد سے آگے بڑھ سکے گا، اور کیا لوگ ایسی فلموں کو اسی طرح پسند کرپائیں گے جس طرح ایک کمرشیل فلم کو کرتے ہیں؟
حال ہی میں دو فلمیں میں نے دیکھی، دونوں ہی بہت پاورفل، ایک تمل انڈسٹری نے دیا، دوسری بالی ووڈ انڈسٹری نے، ایک نے آدی واسیوں کے خلاف اسٹیٹ کے ظلم و ستم کو مرکزی خیال بنایا، اور دوسری نے جنگ آزادی کے لئے جد و جہد کرنے والے "سردار ادھم سنگھ" کی زندگی کو نئی زندگی عطا کی۔
تمل فلم سوریہ کی "جے بھیم" ہے، زمین سے جڑی اداکاری، یہ فلم بہت سارے نیریٹیو کو چیلنج کرنے والی ہے، نہ گانا، نہ موسیقی، نہ عشق، نہ پیار، نہ میک اپ سے لتھڑی ہوئی اداکارہ، نہ جسم کی نمائش، جو بھی ہے، بس پولیس ہے، پولیس کی گھڑی ہوئی کہانی ہے، بڑی محنتوں سے، مشقتوں سے زندگی کی گاڑی کھینچنے والے آدی واسی ہیں، آدی واسیوں کا رول جن ایکٹروں نے کیا ہے، انہوں نے اس میں جان بھر دیا ہے، اتنا نیچرل کیا ہے کہ فلم دیکھتے وقت ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوگا کہ جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں وہ آدی واسی نہیں ہیں۔
یہ کسٹوڈیل ٹارچر اور کسٹوڈیل ڈیتھ کے خلاف صرف ایک فلم نہیں ہے، بلکہ ایک ڈاکیومنٹ بھی ہے، جو شاید ایک مہم بھی بن سکے۔
دوسری فلم "سردار ادھم سنگھ" ہے، وکی کوشل نے اس سے پہلے پروپیگنڈہ پر مبنی فلم کرکے بطور انسان میری نظر میں اپنی کریڈیبلیٹی کھو دی تھی، لیکن اس فلم میں جس طرح کی اداکاری وکی کوشل نے کی ہے، مجھے نہیں لگتا ہے کہ کوئی اور اس طرح کر پاتا۔
آج کے دور میں سنگھیوں کی جانب سے "بھگت سنگھ" کو جس طرح سے پیش کیا جاتا ہے، وہ انہیں "کٹر ہندو" اور "مسلم مخالف" کی شکل دیتا ہے، لیکن اس فلم میں "بھگت سنگھ" کو بھلے مرکزی کردار نہ دی گئی، مگر دو تین سین میں ہی ان کے نظریات کو بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، بھگت سنگھ آزادی چاہتے تھے، اور ان کی آزادی کا خواب "ایکوالٹی" "کمیونل ہارمنی" اور سب کی یکساں عزت پر مبنی تھا، برطانوی حکومت کے خلاف ان کی جد و جہد ظلم کے خلاف نہ جھکنے کا استعارہ ہے۔
اس فلم کا ایک اہم سین "جلیانوالہ باغ" کا قتل عام ہے، ہزاروں لوگوں کا قتل عام، اس کا جس طرح Depiction کیا گیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے آدمی اسی زون میں چلا جاتا ہے، اسے برطانوی حکومت سے نفرت ہونے لگتی ہے، پوری دنیا میں جسٹس کا ڈھونڈورا پیٹنے والی حکومت آج تک اپنے کئے پر شرمندہ نہیں ہے، اس نے ابھی تک حکومت ہند سے آفیشیل اپالوجی نہیں کیا ہے۔
برطانوی حکومت نے "استعمار" کے استعمال کے لئے "وائٹ مینس برڈن" کا استعمال کیا، اور کہا کہ یہ ابھی یہ ایشیائی "سیلف گورنمنٹ" کے قابل نہیں ہیں، ان کے اندر "جہالت" ہے، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں، ہمارے ہونے سے بر صغیر میں امن و شانتی ہے، پنجاب میں سکھ مسلم فساد نہیں ہورہے، لیکن انہیں گوروں کو جب احساس ہوا کہ لوگ اب ایجوکیٹ ہورہے ہیں، اپنے حق کے لئے جاگ رہے ہیں، تو انہیں دبانے کے لئے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، اچھی بات یہ ہے کہ اب وہی تاریخ "شوجیت سرکار" کی دیکھ ریکھ میں اسکرین کا بھی حصہ بن گئی ہے۔
اس فلم میں سنگھیوں کے لئے سب بڑا شاکنگ یہی رہا ہے کہ انہیں اس فلم کے ذریعہ پتا چلا کہ بھگت سنگھ اور ان کے تحریکی ساتھی کمیونسٹ تھے، ادھم سنگھ کے سوویت یونین کے کمیونسٹوں سے تعلقات تھے، اس فلم میں ادھم سنگھ کے نام پر بھی زور دیا گیا، جب برطانیہ میں پنجاب کے سابق لفٹینیٹ گورنر مائیکل ڈائر کا قتل کیا، اور انہیں گرفتار کیا گیا، تو بار بار ان سے اصلی نام پوچھا گیا، لیکن انہوں نے ہر بار بتانے سے انکار کردیا، بہت زیادہ ٹارچر کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ پر ٹیٹو شدہ نام دکھایا کہ یہ میرا نام ہے، "رام محمد سنگھ آزاد"، یہ نام بڑا ہی Symbolic ہے، اور پورے ہندوستان کو رپریزنٹ کرتا ہے، اور یہ بھی درشاتا ہے کہ اس وقت جو مارکسی انقلابی تحریک تھی "غدر پارٹی" یا پھر HSRA ، دونوں مستقبل کے ہندوستان کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔
اسی طرح جب کورٹ میں ادھم سنگھ سے قتل کے پیچھے کا موٹیویشن پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
ہاں میں نے کیا ہے، اور اس وجہ سے کیا ہے کیونکہ مجھے اس سے نفرت تھی، وہ اسی کا مستحق تھا، اور وہی اصلی مجرم بھی تھا، وہ میرے لوگوں کے اسپرٹ کو کچل دینا چاہتا تھا، اس لئے میں نے اسے کچل دیا، انتقام لینے کے لئے میں پورے اکیس سال سے انتظار کر رہا تھا، اور میں بہت خوش ہوں کہ میں نے اپنا کام کردیا، مجھے موت کا کوئی خوف نہیں ہے، میں اپنے ملک کے لئے مر رہا ہوں، میں نے ہندوستان میں برطانوی شاسن کے دوران لوگوں کو بھوک سے مرتے دیکھا ہے، میں نے (قتل کے ذریعہ) اس کے خلاف احتجاج کیا ہے، اور یہی میرا فرض تھا"۔
غرضیکہ دونوں فلمیں بہت شاندار ہیں، اور اگر ہم اسے لارجر پرسپیکٹیو میں دیکھیں تو ان دونوں فلموں کا بننا بہت ضروری نظر آتا ہے، دونوں فلموں سے جو پیغام دیا گیا ہے، وہ بہت واضح ہے، کسٹوڈیل ڈیتھ پولیس کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے، اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اسے روکنے کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے، آدی واسی اس بھارت کے مول نواسی ہیں، مگر انہیں انہیں کے ملک میں ابھی وہ آزادی اور وہ برابری نہیں ملی ہے جس کے وہ حقدار ہیں، اور نہ ہی اس کے لئے کوئی سنجیدہ پیش رفت کی جاتی ہے، انہیں آدی واسیوں کی جگہ پر آپ مسلمانوں کو رکھ دیں، انکاؤنٹر، فرضی مقدمات، جیل میں ماردینا، ان کے بنیادی حقوق سے انہیں بے دخل کردینا اور جب وہ احتجاج کریں تو دنگے کراکر انہیں کے کریم نوجوانوں کو جیل میں سڑا دینا، کاش ان کے لئے بھی کوئی "چندرو" اٹھے، اور سماجی انصاف کی لڑائی شروع کرے۔
عزیر احمد
نومبر ۲۰۲۱

