جے۔این۔یو کی اپنی دنیا ہے، اور اس دنیا کا کوئی بدل نہیں، میں اکثر کہتا ہوں کہ اگر آپ کو جاننا ہو کہ ہندوستان کیسا ہونا چاہئے تو آپ جے۔این۔یو میں ایک باری گھوم لیجئے، زمین پر بیٹھے ہوئے امیرزادے، انہیں لیکچر دیتا ہواآدیواسی بیک گراؤنڈ سے آنے والا اسکالر، ایک مسلمان کا سب سے بیسٹ فرینڈ ایک غیر مسلم، داڑھی ٹوپی کرتے میں ملبوس عالم ، وہیں بھگوادھاری زیب تن کئے ہوئے ایک پنڈت، "لکم دینکم و لی دین" کے بے شمار مظاہر، غرضیکہ جے۔این۔یو ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو مختلف ایسے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں، جو ’دھرم نرپیکچھتا‘ پر آپ کے یقین کو مضبوط کردیتے ہیں، اور ایک ایسا Visual دیتے ہیں جس میں آپ ہندوستان دیکھنے لگ جاتے ہیں، کہ کاش جو سوچ، جو فکر یہاں کی فضاؤں میں ہیں، یہاں کے طلبہ میں ہے، کاش وہی پورے ہندوستان کا ہوجائے۔
جے۔این۔یو چھوڑنے کے بعد کبھی کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ میں نے جے۔این۔یو کو یاد نہ کیا ہو، یہاں کے کمرے بھلے دیکھنے میں بوسیدہ معلوم ہوں، مگر جو سکون یہاں ملتا تھا وہ کہیں دوبارہ ملا ہی نہیں، جے۔این۔یو کے بعد میں نے بہت ساری جگہوں پر دن گزارا، اچھے اچھے ہوٹلوں میں راتیں بسر کیں، مختلف جگہوں اور مقامات کی زیارت کی، مگر یہ سب چیزیں کبھی خواب میں جے۔این۔یو کو بدل نہیں پائیں، جب بھی میں نے خواب دیکھا، جب بھی میں نے سوچا، بس جے۔این۔یو ہی نظر آیا۔
ایسا کچھ نہیں تھا کہ مجھے جے۔این ۔یو میں کسی سے عشق تھا، اس لئے جے۔این۔یو پسند تھا، جے۔این۔یو سے پیار تھا کیونکہ وہاں کی سرد راتیں پسند تھیں، وہاں کی بارش پسند تھی، وہاں خواب دیکھنا اچھا لگتا تھا، وہاں جب سروں کے اوپر سے جہاز گزرتے تھے، تو حسرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھنا پسند تھا کہ نجانے کب وہ دن آئیں گے کہ ہمارے بھی سفر انہیں جہازوں میں ہوا کریں گے، پھر وہ دن آیا بھی کہ جہاز ہی منزل مقصود تک پہونچنے کا ذریعہ ٹھہرے، مگر منزل پر پہونچ کرمنزل ہی نہیں راس آئی۔
جے۔این۔یو کی لائبریری سے مجھے عشق تھا، بہت کم ہی دن ایسے گزرے ہوں گے کہ جب میں جے۔این۔یو میں رہا ہوں اور لائبریری نہ گیا ہوں، ایسا نہیں تھا کہ میں بہت پڑھنے والا انسان تھا، بس مجھے لائبریری جانے سے سکون ملتا تھا، ایک ایسا سکون جو پھر کبھی مجھے کہیں مل ہی نہیں سکا۔ لائبریری جانے کی عادت ایسی تھی کہ اگر کسی دن نہ جانا ہوپاتا تو عجیب سا لگتا، وہاں جاتے، بھلے ہی کچھ دیر بیٹھے رہتے، اور لائبریری کے پیچھے بنی کینٹین کی مشینی چائے پی کر واپس آجاتے، اخبار پڑھ لیتے یا ابن صفی/مظہر کلیم کے ناول پڑھ لیتے، ویڈیو دیکھ لیتے، کچھ بھی کرتے، مگر جاتے ضرور تھے۔
جے۔این۔یو کی شامیں مجھے اکثر بڑی اداس سی لگا کرتی تھیں، شام کے بجائے رات وہاں زیادہ زندگی کا ثبوت دیا کرتی تھی، گنگا ڈھابہ پر چہل پہل، چائے وہاں پر بالکل ٹرین کی چائے کی طرح ملا کرتی تھی، مگر بھیڑ تھی کہ اسی چائے کے لئے امنڈ پڑتی تھی، پتہ نہیں اب وہاں کے ورکروں کو میرا چہرہ یاد بھی ہوگا یا نہیں، مگر چائے والا اس قدر مجھ سے واقف تھا کہ میراچہرہ دیکھتے ہی چائے نکال دیا کرتا تھا۔گنگا ڈھابہ کے آلو پراٹھے بیسٹ تھے، رات میں ان کی خوشبو زبردستی کھانے پر مجبور کردیا کرتی تھی، رات کے بارہ بجے ملک آتا، عامر بھائی آتے، اور جنید بھائی ہوتے، دوستوں کا جمگھٹا ہوتا، آلو پراٹھا، میگی،ہاف فرائی، چائے، اور کوئی عالمی یا قومی مسئلہ ، بس چرچے چلتے رہتے، گیان چاروں طرف بٹ رہی ہوتی، بسا اوقات ایسا ہوتا کہ کوئی ایک ایسا جملہ یا ایسی فکر چلتے چلتے سننے میں آجاتی کہ وہی میرے مضمون کا محرک بن جاتی۔
مضامین لکھنے کی شروعات میں نے جے۔این۔یو ہی سے کری ہے، وہاں مجھے سوچنے کے لئے بہت وقت ملتا تھا، وہاں سے نکلنے کے بعد ’ذہنی یکسوئی‘ کا حصول ایک خواب سا ہوگیا، پرائیویٹ سیکٹر کی نوکری، آٹھ گھنٹے کی مشینی زندگی، اور ویک آف کے دن Chill کرنے کا کارپوریٹ کلچر، ان سب نے لکھنے کے Pace کو سلو کردیا، ہر دن میں نے یہی محسوس کیا کہ میں خود کو کھو رہا ہوں، اور ہر دن خود کو یہی تسلی دیا کہ دنیا کے ستر فیصدی لوگوں کو من موافق کام نہیں ملتا ہے، اور زندگی میں پیسوں کی بہت اہمیت ہے، سو کچھ تو کھونا ہی پڑے گا۔
جے۔این۔یو نے مجھے بہت کچھ دیا، جے۔این۔یو نے مجھے علم دیا، فکر دیا، پڑھنا سکھایا، لکھنا سکھایا، اور اس قدر مجھ سے وفاداری کی کہ جدائی کے لمحے جب قریب آئے تو کیمپس پلیسمنٹ کے ذریعہ ہاتھوں میں نوکری تھما دیا، اس نوکری کو میں نےکبھی پسند نہیں کیا، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے، اچھے کے لئے ہوتا ہے، سو اس نوکری کے ذریعہ زندگی میں بہت ساری اچھی چیزیں بہت جلدی واقع ہوئیں، اب بس اتنی سی خواہش ہے کہ کسی طرح میں پھر سے اکیڈمکس کی طرف لوٹ سکوں، یہ الگ بات ہے کہ دو سال مکمل پڑھائی چھوڑدینے کے بعد واپسی کا سفر اپنے آپ میں ایک چیلنج ہے، مگر وہ کیا ہے نا کہ خواب ضرور دیکھنے چاہئے اور ابھی تک بہت ساری چیزوں کو میں نے خواب دیکھ کر ہی حاصل کیا ہے الحمد للہ۔
عزیر احمد
ستمبر ۲۰۲۱
