کچھ اپنے تعلق سے


 زندگی بھی نا کتنی عجیب ہے، اتنی تیزی سے گزر جاتی ہے کہ احساس بھی نہیں ہونے دیتی، لگتا ہے کل ہی کی بات تھی جب چھوٹے تھے، گھر پر بھائیوں کے ساتھ لڑائیاں کرتے تھے، بہنوں کو تنگ کیا کرتے تھے، گاؤں کی گلیاں، وہ بچوں کا جمگھٹا، وہ کھیل کھیل میں جھگڑے، اور پھر جھگڑوں کے معا بعد صلح، وہ ماں کی اجازت کے بنا گھر سے نکل جانا، سب کچھ کتنی تیزی سے ختم ہوگیا، بس یہی لگتا ہے کہ شاید ہم نے پلکیں جھپکیں ہیں اور منظر بدل گیا ہے، اب نہ وہ خوشیاں رہیں، نہ وہ دوست رہے، نہ وہ زندگی، یا پھر شاید ہم ہی اپنی انفرادی زندگی کو سنوارنے میں اس قدر مشغول ہوگئے کہ ہمارے پاس کسی کے لئے وقت ہی نہیں رہا، اب تو حالت یہ ہے کہ بچپن کے لمحے، وہ بچپن کے دوست سب یاد کرنے پر یاد آتے ہیں۔
کہتے ہیں انسان اپنی قسمت خود لکھتا ہے، لیکن جب میں اپنی زندگی پر غور کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ نہیں یہ تو مالک کائنات کی کرم فرمائی ہے کہ وہ جس راستے پر انسان کو لے جانا چاہتا ہے، بچپن سے اس کے لئے راستے ہموار کردیتا ہے، انسان Unintentionally انہیں وسائل کو اختیار کرتا ہے جن کے ذریعہ وہ آگے چل کر اس منزل تک جاپہونچتا ہے جسے قادر مطلق نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ہوتا ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی میں ایک جملہ بھی لکھ سکوں گا، لیکن ہاں بچپن سے ہی میں کتابوں کا بے انتہا شوقین تھا، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ گھر پر بڑا علمی ماحول تھا، چاروں طرف کتابیں بکھری پڑی رہتی تھی، بے ترتیب بے سلیقہ، انہیں الماریوں میں سجاتے سنوارتے کب ان کتابوں کو دل دے بیٹھا پتہ ہی نہیں چلا، مجھے یاد ہے کہ جب میں مکتب میں پڑھتا تھا، درجہ دو کا طالب علم تھا، اس دور میں جب کہ لوگ پانچویں کلاس میں پڑھنے کے باوجود بھی ایک لفظ نہیں پڑھ پاتے تھے، اس وقت میں دھیرے دھیرے اخبارات پڑھ لیتا تھا، گھر پر کوئی مہمان آتے تو ابو سب کے سامنے مجھے پیش کرکے مجھ سے اخبار پڑھواتے، بعد میں درجہ پانچ تک پڑھتے پڑھتے گھر میں رکھی بہت ساری کتابیں پڑھ گیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقعات، جنگ و فتوحات، میری یہ عادت تھی کہ میں کچھ بھی پڑھتا تو اسے امی کو ضرور سنایا کرتا، وہ روٹیاں بناتیں، میں انہیں پاس بیٹھ کر قصے سناتا، اور انہیں قصوں کو سناتے سناتے ایک دو روٹی کھا جاتا، شاید یہ میری زندگی کے گزرے ہوئے وہ خوبصورت لمحے ہیں جو کبھی اب واپس نہ آ سکیں گے۔
مدرسے میں پڑھنے گیا، بہت سارے اچھے دوست ملے، زندگی کے اچھے اور برے تجربات سے واقفیت ہوئی، مطالعہ کا شوق تھا، مدرسے کے ابتدائی دنوں میں اپنے ابو کے آفس میں رکھی اکثر کتابیں جو میری دلچسپی سے متعلق تھیں انہیں پڑھ گیا، شاید ایک قسم کا جنون تھا، میرے گھر والے میرے بہت زیادہ پڑھنے کو ناپسند کرتے تھے، کیونکہ میرے پڑھنے سے سر میں درد رہتا تھا، لیکن کیا کرتا، محبت کی بات تھی، جسے ایک مرتبہ کسی سے عشق ہوجائے، پھر تو وہ چھوڑنے سے بھی نہ چھوٹے، میرا پہلا پیار تو کتاب ہی تھا، آج بھی ان میں سے بعض کتابوں پر میرا یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ یہ کتاب میں نے اتنے دن سے اتنے دن میں ختم کی، بہت ساری موٹی موٹی کتابیں جیسے اسلامی تاریخ سے متعلقہ کتابیں میں اس دور میں پڑھ گیا تھا جس دور میں بچوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان کی کوئی تاریخ بھی تھی۔
میرے والد کی ایک بڑی اچھی عادت تھی کہ انہوں نے بچپن سے مجھے اخبار پڑھنا سکھا دیا تھا، مدرسے میں جب سے اعدادیہ کے طالب علم ہوئے، اس وقت سے لے کر اب تک میری زندگی کے بہت کم ہی دن ایسے گزرے ہوں گے جب میں نے اخبار نہ پڑھی ہو، ایک ذمہ داری عائد کردی گئی تھی کہ ایک بجے کلاس کرنے، کھانا کھانے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد اخبار ضرور پڑھنا ہے، ہمیں بتایا گیا ہم کچھ پڑھیں نہ پڑھیں اخبار کا پہلا پیج، اداریہ اور اخبار عالم ضرور پڑھ لیا کریں، یہی وجہ ہے کہ عالم اسلامی میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث و واقعات سے بہت بچپن سے واقفیت ہوگئی تھی، میں طالبان، القاعدہ، امریکہ، اور فلسطین وغیرہ کے مسائل پر اپنے ساتھیوں کے درمیان اس وقت گفتگو کرلیا تھا جب شاید کہ انہوں نے کبھی نام بھی نہیں سنا ہوگا، مجھے بڑا تعجب ہوتا جب میں اپنے ساتھیوں کو دیکھتا کہ وہ اخبار محض کرکٹ کی خبریں پڑھنے کے لئے اٹھاتے ہیں، آج بھی مدرسے کے بچوں کی تقریبا یہی حالت ہے۔
اخبار سے جو دل کی لگی، تو پھر کبھی نہ چھوٹی، یہی وجہ ہے کہ جب جامعہ سلفیہ میں پڑھنے گئے، تو اس وقت کمرے والوں سے گزارش کی کہ اخبار منگایا کریں گے، کچھ دن تک لوگوں نے ساتھ دیا، پھر کہا ہمیں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں، مجبورا میں نے بہت دنوں تک اکیلے ہی منگایا، آج بھی میری پڑھائی کا بیشتر حصہ اخبارات پر مشتمل ہوا کرتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اردو تک محدود ہوا کرتا تھا، جب سے "دی ہندو" اور "انڈین ایکسپریس" سے واقفیت ہوئی، اردو نیوز پیپرز کو ہاتھ لگانا چھوڑ دیا، آج بھی اگر کسی وجہ دو تین دن کا اخبار نہیں پڑھ پاتا ہوں، تو سب کو جمع کرکے ایک دن ٹائم نکال کر ضرور پڑھتا ہوں۔
میرا اپنا ماننا ہے کہ اخبارات کا اور خارجی کتابوں کا ہماری زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے، طلبہ چاہے یونیورسٹی کے ہوں یا مدرسے کے، اگر ان کو روزآنہ اخبارات اور دیگر کتابوں کے مطالعہ کی عادت نہیں ہے، تو ان کی زندگی کہیں نہ کہیں ایک بند کنؤیں میں محدود ہوکر رہ جاتا ہے، ایجوکیشن کا تعلق Awareness سے بہت زیادہ ہے، کیونکہ جب تک انسان باخبر نہیں ہوگا کہ اس کے اردگرد چل کیا رہا ہے، اور نہ ہی وہ اپنے ایجوکیشن کو حقیقی زندگی سے Relate نہیں کرپائے گا، اور محض خواب کی زندگی گزارے گا۔
یونیورسٹی کی دنیا میں آنے کے بعد دنیا بھر کے لیڈنگ نیوز پیپرز کے اخباروں کے آرٹیکل کا چسکا لگا، اور میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ دوران گریجویشن میں ہزاروں آرٹیکلز کا مطالعہ کیا، یہی وجہ ہے کہ مختلف اخباروں کے اسلوب اور طرز نگارش سے بخوبی واقفیت ہوگئی، چیزوں اور واقعات کو دیکھنے کا ہر اخبار کا اپنا ایک الگ اسلوب ہے، اور اس اسلوب کے بنانے میں بہت سارے عوامل کارفرما ہورہے ہیں، جس میں سب سے اہم آئیڈیالوجی ہے، اخبار جس آئیڈیالوجی سے منسلک ہے، اس کی رپورٹنگ اسی آئیڈیالوجی کی مناسبت سے ہوا کرتی ہے۔
بہرحال اپنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہیں اور نکل گیا، اور صحیح بات تو یہ ہے کہ ابھی اس لائق ہوئے ہی نہیں کہ زندگی کے واقعات بتاکر لوگوں کو متأثر کیا جائے، ہم میں سے ہر شخص ایک کہانی ہے، بس فرق یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اپنی کہانیاں بتانی آتی ہیں، اور کچھ لوگ بنا بتائے مرجاتے ہیں، اور انہیں کے ساتھ ہزاروں جد و جہد اور آزمائشوں پر مبنی کہانیاں دفن ہوجایا کرتی ہیں، کبھی اللہ رب العالمین نے موقع دیا تو ہم بھی اپنی کہانی لکھیں گے، فی الحال اتنا ہی کہنا ہے کہ ہر برتھ ڈے ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا ہے، وقت تیزی کے ساتھ ساتھ گزرتا جارہا ہے، اور اسی تیزی کے ساتھ ہم اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہیں، اور یہی ہمارا انجام ہے، شہاب ثاقب  کی طرح کچھ وقت کے لئے چمکتے ہیں، اور پھر ہمیشہ کے لئے تاریکی مقدر ہوجاتی ہے، کچھ لوگ بھلا دئیے جاتے ہیں، اور کچھ لوگ ہمیشہ یاد رکھے جانے کے لئے کچھ کام کرجاتے ہیں، اب یہ انسان کے اوپر ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے، کیا وہ تاریخ کے آنے والے صفحات میں اپنے نام کو درج دیکھنا چاہتا ہے، یا پھر دیگر تمام لوگوں کی طرح وہ گمنامیوں کے جزیرے میں بھٹک جانا چاہتا تھا۔
ہم میں سے ہر شخص کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے، اور اسی مقصد کو ڈھونڈنا ہماری ذمہ داری ہے، جس دن ہم سمجھ گئے کہ اس کائنات میں بھیجے جانے کا ہمارا مقصد کیا ہے، کیا یونہی آئے، کھائے پیئے، اور مرگئے، بس اتنی ہی زندگی ہے، یا زندگی کی حقیقت کچھ اور ہے؟ فلاسفی کی ساری بحثیں اسی سوال کے جواب میں بھری پڑی ہیں، اور یہی جواب ہم سب کو تلاش کرنا ہے، لیکن دوسرے کے نقطہ نظر سے نہیں، دوسرے کے بیان کردہ نتیجے کو نہیں اخذ کرنا ہے، بلکہ اپنے عقلی و ذہنی استعداد کو کام میں لاکر اس زندگی کا مقصد حقیقی پانے کی کوشش کرنا ہے، جب تک اس حقیقی مقصد ہم آشنا نہیں ہوں گے، یونہی ہم سمندر میں اس کشتی کی طرح بھٹکتے رہیں جس کا کوئی ناخدا نہیں ہوتا۔

عزیر احمد
نومبر ۲۰۱۸
ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی