کچھ ربیع الاول کی مناسبت سے


ہمارے ایک پروفیسر ہیں، وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو غیروں کو مسلمان بنانے کی فکر چھوڑ کر مسلمانوں میں موجود غیر مسلم نما لوگوں کو مسلمان بنانے کی فکر کرنی چاہئے، اور سچ بھی یہی ہے، ہندوستان میں تقریبا تیس کروڑ کی آبادی ہے، لیکن اگر دقت نظری سے جائزہ لیا جائے تو بہت ہی کم لوگ نظر آئیں گے جو حقیقی معنوں میں مسلمان کہلائے جانے کے حقدار ہوسکیں، جاہلانہ رسم و رواج، ہندوانہ طور طریقے، مشرکانہ عقائد، کافرانہ خرافات، کیا ہے جو مسلمان اسلام کے نام پر انجام نہیں دیتے ہیں، بلکہ اسی کو حقیقی اسلام باور کرتے اور کراتے ہیں، اور اس سے زیادہ افسوسناک امر ہمارے علماء کا مفاہمتی انداز ہے کہ ارے جانے دو کیا ہوا، ہیں تو مسلمان ہی۔
بھئی کون سا اسلام، کون سا مسلمان، سارے طور طریقے تو ہندؤوں کے ہیں، اسلام ہے کہاں، بھکتی کو اسلامائز کرکے صوفی قوالی بنا دیا گیا، درگا وسرجن کو شیعوں نے اسلام کا لبادہ پہنا کر حسین رضی اللہ عنہ کے تعزیے بنانے شروع کردئیے، بریلویوں نے گنبد خضراء کو "وسرجت" کرنا شروع کردیا، مزار شرک کے اڈے بن گئے، کبھی موقع ملے تو جاکر دیکھئیے، قسم قسم کے تماشے مزاروں پر نظر آئیں گے، وہاں سب کچھ نظر آئے گا، مگر اسلام بھی "ایلین" نظر آئے گا، کوئی مجھے بتلائے یا میں بتلاؤں کیا، یہ کون سا اسلام ہے کہ عورتوں کو ٹرالیوں اور بسوں پر بے پردہ سوار کراکر، ڈی.جے لگا کر، گانے کے طرز پر لبیک یا رسول اللہ کی صدائیں بلند کرکے ان کو گلی گوچوں میں گھمایا جائے، مولوی کرتا پاجامہ پہن کر سڑکوں پر بھنگڑا کرتے نظر آئیں، کبھی ہمارے علاقے سدھارتھ نگر خاص کر ڈومریاگنج میں آئیے تماشا دیکھنے میلاد النبی کا، الامان و الحفیظ، دنیا جہان کی ساری برائیاں اس ایک دن میں انجام دے دی جاتی ہیں، کمار سانو، سونو نگم اور ارجیت کی آواز میں نعت کے وہ نغمے پڑھے جاتے ہیں کہ اصل سنگر بھی سنیں تو گھبرا کے گانا چھوڑ دیں کہ ہائے میں مسلمان کب ہوگیا۔
ارے بھئی اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرنا ان کی تاریخ پیدائش کے دن ہی ضروری ہوتا، تو "لوجیکل" بات یہ ہوتی کہ آپ اس دن زیادہ سے زیادہ "سیمنار" کا انعقاد کروا دیتے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مدح میں کوئی پروگرام منعقد کروا دیتے، چند علماء جمع ہوتے، عوام الناس کو نصیحتیں کرتے، انہیں دین پر کاربند رہنے کی دعائیں کرتے، بات ختم ہوجاتی، باوجود یکے کہ "سد ذریعہ" کے طور پر یہ چیزیں بھی میرے نزدیک اور دیگر علماء کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد کئے جانے کے لئے کسی خاص دن کے محتاج نہیں ہیں، خصوصی طور پر یاد تو ان کو کیا جاتا ہے جو ذہنوں سے محو ہورہے ہیں، میری نبی کی آمد کا تو یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ میری پیدائش کے دن کو عید بنا لینا، اس دن میرا ذکر کرلینا، اور بقیہ سال کے "بارہ ماس" مجھے یاد تو دور مالک کائنات کی نافرمانی میں زندگی گزارنا، کیا اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد محض ایک دن کے لئے ہے؟ یا ان کی تعلیمات کو اپنا حرز جاں بنا لینا ہے؟
اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنی ذات، مال، اہل اولاد اور آل عیال سے زیادہ محبوب نہیں ہیں تو پھر ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے، ایک مسلمان کو حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس قدر غرق ہونا چاہئے کبھی ان کی یاد ذہنوں سے محو ہی نہ ہو، اور دیکھئیے تو اللہ رب العالمین نے بھی اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شان کو کس قدر اعلی و ارفع بنایا ہے کہ ان کے نام کو پنج وقتہ اذانوں کا ایک اہم جزء بنا دیا ہے، اور جن پر درود بھیجے بغیر نماز ہی ممکن نہیں، اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرنے کے لئے کسی خاص دن کا اہتمام کرنا چہ معنی دارد؟ اور پھر اس خاص دن کو عید بنا لینا یہ کس سے ثابت ہے، قرآن سے، حدیث سے، نبی کے فرمان سے، صحابہ کے افعال سے، تابعین سے، تبع تابعین سے، پورا خیرالقرون، آخر یہ عید ثابت کس سے ہے یا یوں ہی ہواؤں میں عیسائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نبی کی یوم پیدائش کو ہم نے عید منالیا، پھر شاید اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جانا ہی نہیں، ان کو اپنے ذہنوں اور دل و دماغ میں رچایا بسایا ہی نہیں، تبھی تو ہم انہیں یاد کرنے کے لئے کسی ایک خاص دن کے محتاج ہیں۔
مگر میرے بھائی! یہ یاد کرنا بھی کیسا یاد کرنا ہے، جہاں نہ خوبیوں کا تذکرہ کرنا ہے، جہاں نہ مدح و ثنا کرنا ہے، جہاں نہ قرآن کی آیتیں پڑھنی ہے، جہاں نہ حدیثوں کو یاد کرنا کرانا ہے، جہاں نہ غیر مسلموں تک اسلام کی تعلیمات پہونچانی ہے، نہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے روشناس کرانا ہے، کیسی عقیدت ہے یہ، کہ یاد کرنے کے نام پر ڈی.جے بجانا ہے، جلوس نکالنا ہے، میلے سجانا ہے، ناچنا یے، گانا ہے، دیر رات تک ہنگامے برپا کرنا ہے، بہت سارے مسلمانوں سمیت غیر مسلموں کو تنگ کرنا ہے، یہ تو پھر یاد کرنا نہیں ہوا، یہ تو محض خواہش نفس کی پیروی ہے، یہ پاپی پیٹ کے پوجا کا سوال ہے، یہ آنکھوں کے زنا کی خواہش ہے، یہ قدموں کو برائی کی طرف لے جانے کی لالچ ہے، اور اس پر طرہ یہ ہے کہ ان محفلوں میں نبی کی آمد کا غلغلہ بھی بلند ہوتا ہے، قسم رب کعبہ کی، سچ بتاؤ یہ اسلام ہی ہے یا کوئی اور مذہب ہے؟
ہمارے علماء کو چاہئے کہ ڈنکے کی چوٹ پر اس قسم کے خرافات کا نہ صرف انکار کریں بلکہ نکیر بھی کریں، مانا کہ ہندوستان میں آزادی ہے، مگر اسلام میں اسلام کے نام پر من مانی کرنے کی آزادی نہیں ہے، انسان اپنے دائرہ اختیار میں برائی کرنے پر آزاد ہے، لیکن جہاں اس برائی کو اسلام سے جوڑا جانے لگے اس کا انکار کرنا اسلامی فریضہ ہے، ہمارے علماء کو چاہئے کہ ہر اس اتحاد کو وہ جوتے کی نوک پر رکھیں جس کی بنیاد اسلام کے قلعہ پر ضرب لگا کر رکھی جائے، ارے بھئی بدعتی مشرک یا کافر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، کیونکہ دونوں میں ایک وجہ امتیاز ہوتا ہے، جس کی بنا پر تفاوت آسان ہوتا ہے، ہم اپنے آنے والی نسلوں کو آگاہ کرا سکتے ہیں کہ دیکھو یہ ہندو ہیں، یہ عیسائی ہیں، یہ فلاں ہیں، وہ بخوبی واقف ہوجائے گا کہ یہ فلاں مذہب کے فلاں لوگ ہیں، اس وقت اس کا ان کے شرک سے بچنا آسان ہوگا، لیکن جو لوگ اسلام کا لبادہ پہن کر اسلام کے نام پر "غیر اسلامی رسم و رواج" یا "لا مذہبیت" کو بڑھاوا دیتے ہیں، ان سے کوئی کیسے بچے گا، یہ لوگ "سلو پوائزن" کی طرح ہوتے ہیں، جو اپنی آئیڈیالوجی کا زہر دھیرے دھیرے لوگوں کے ذہنوں میں اتار دیتے ہیں، اور ایسا کرنا ان کے لئے آسان بھی ہوتا ہے، کیونکہ دکھتے تو مسلمانوں  جیسے ہی ہیں، نام بھی مسلمانوں جیسے ہوتے ہیں، تو ان کے زہر سے کوئی کیسے بچ سکے گا۔
امر بالمعروف و النھی عن المنکر کا فریضہ مسلمانوں کو غیر مسلموں میں چھوڑ کر خود مسلمانوں میں زیادہ انجام دینے کی ضرورت ہے، آج مسلمان قرآن، حدیث، نماز، زکوة، روزہ، حج غرضیکہ اسلامی کے ہر امتیازی خصوصیت سے دور ہوتا جارہا ہے، اور نادان یہ سمجھتے ہیں کہ محض ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ڈی جے بجالینے سے قیامت کے دن شفاعت کا حصول آسان ہوجائے گا، اللہ کے رسول صلی اللہ کے اوامر کو بجالانا اور نواہی سے اجتناب نہ کرنے کا نتیجہ تو یہ ہے کہ مزعومہ یوم پیدائش کے دن بھی برائیاں انجام دی جارہی ہیں، اور خواب دیکھا جارہا ہے قیامت کے دن دامن پکڑ کر مچل جانے کی، آدمی جس سے محبت کرتا ہے اس کا فرمانبردار ہوتا ہے، نجانے کب مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار بننا سیکھیں گے۔
عزیر احمد
نومبر ۲۰۱۸


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی