اکثر یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ ملک کی معیشت تباہ ہورہی ہے، روپیہ گر رہا ہے، مگر عوام کو ان سب مسئلوں سے بھٹکانے کے لئے مندر مسجد کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، حلال حرام کو ایشو بنایا جاتا ہے، تو یہ مکمل سچ نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت جن مسئلوں کو سننا اور دیکھنا پسند کرتی ہے، میڈیا انہیں کو اٹھاتی ہے، اس وقت عوام کو نہیں پسند کہ کوئی انہیں یہ بتائے کہ پٹرول ڈیزل کے دام بڑھ گئے ہیں، انہیں نہیں پسند کہ کوئی یہ بتائے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں، گیس سلنڈر عام آدمی کی پہونچ سے دور ہوتا جارہا ہے، انہیں یہ سارے موضوعات دقیانوسی اور پرانے لگتے ہیں، ان کے لئے اہم یہ ہے کہ ان کے کانوں میں صبح وشام انڈیلا جائے کہ تاج محل تیجومہالیہ ہے، قطب مینار پتہ نہیں کس کا مندر ہے، گیان واپی کی مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔
یہ سب انہیں سننا اور جاننا ہے، انہیں موضوعات سے ان کے سپریمسٹ انا کو تسکین پہونچتی ہے، ان کے آباء و اجداد نے تو زیادہ کچھ کیا دھرا نہیں ہے، تعمیر اور ذوق جمال سے انہیں کیا وابستگی، صدیوں تک غلامی کی زندگی جی ہے، اب ذرا دامن کو تھوڑی سی کشادگی نصیب ہوئی ہیں تو سوچ رہے ہیں کہ کیسے بھی کرکے سارے مسلم آثار قدیمہ کو اپنا لیا جائے، ورنہ تاج محل کو مندر بتانا اتنا صاف اور صریح جھوٹ ہے کہ اس کے لئے دلائل بھی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، لیکن کیا کریں، چینلوں کی اپنی مجبوری ہے، عوام یہی سننا چاہتی ہے کہ تاج محل مندر ہےتو پھر ٹھیک ہے، لو دیکھو، پیش ہے پروگرام پر پروگرام۔
اگر یہ آپ کو یہ لگتا ہے کہ ہندوستان کا اکثریتی فرقہ ان کو موضوعات کو دیکھنا اور سننا نہیں چاہتا، اسے ترقی اور خوشحالی کی باتیں چاہئے، تو چینلوں کے ٹی آر پی ریٹ الگ کہانی نہ سنا رہے ہوتے، رویش کمار کو ویوز کے لئے جدوجہد نہ کرنی پڑتی، انہیں بار بار یہ اپیل نہیں کرنا پڑتا کہ ٹی وی دیکھنا بند کردیجئے، انہوں نے نوکری سیریز کیا، یونیورسٹی سیریز کیا، اور پتہ نہیں کون کون سے سیریز کئے، لیکن فائدہ؟؟ شاید کچھ بھی نہیں، نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے، خلق خدا تو کسی اور چیز میں مصروف ہے۔
اکثریتی طبقہ کا دماغ ہیک ہوچکا ہے؟
اس سوال پر اگر میں غور کروں تو اس کے مجھے جہاں بہت سارے اسباب سمجھ میں آتے ہیں، وہیں ایک بڑا سبب یہ بھی سمجھ میں آتا ہےکہ عام ہندؤوں کی اکثریت نوجوان طبقے پر مشتمل ہے، یا اس طبقے پر جو تقسیم ہند کی بعد کا پیداوار ہے، تقریبا صدی گزرنے کو ہے، زیادہ سال نہیں بچے ہیں، اور اس نے کبھی خانہ جنگی نہیں دیکھی ہے، اس نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا ہے کہ جب دو قومیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو کیسی تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، یہ طبقہ جوش اور جذبے سے بھرپور ہے، اس نے ہجرت کا غم نہیں جھیلا ہے، اس نے بہنوں اور بھائیوں کو بچھڑتے نہیں دیکھا ہے، اس نے ماؤں کو اپنے سامنے قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے، اس نے جنگوں کے سبب پیدا ہونے والی بدحالی اور تباہی کا نظارہ نہیں کیا ہے، اوپر سے رائٹ ونگ کے لٹریچر نے اسے ذہنی شکست خوردگی کا شکار بنا رکھا ہے، وہ ایک طرف سلیبس میں مغلوں کی تعریف پڑھتا ہے، ان کے آرکٹیچکر اور عظیم الشان عمارتوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے، دوسری طرف سنگھ کا لٹریچر اسے ذہنی خلجان کا شکار بنادیتا ہے، یہ لٹریچر اسے بتاتا ہے کہ مغل ڈاکو تھے، انہوں نے ہماری عزتیں لوٹیں، ہماری عصمتوں کو ہمارے گھروں سے اٹھا کر لے گئے اور اپنے گھروں کی زینت بنا ڈالی، انہوں نے ہماری عمارتوں پر قبضہ کیا اور اس میں تھوڑی بہت تبدیلی کرکے اسے تاج محل یا قطب مینار بنا ڈالا، سنگھ اسے بتاتا ہے کہ جو تم سلیبس میں ابھی تک چبا رہے تھے وہ ابوالکلام آزاد یا لیفٹ ونگ کا پروسہ ہوا نوالہ ہے، آزادی کے بعد نہرو نے ابوالکلام آزاد کو وزیر تعلیم بنا کر ہندوستان کے پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا، انہوں نے لیفٹ ونگ کے ساتھ مل کر سلیبس کا اسلامی کرن کردیا تھا۔
سنگھ نے اس نیریٹیو کو اتنی شدت سے پھیلایا کہ آج یہی حقیقت بن چکا ہے، اور ینگ ہندو مائنڈ اسے بطور فیکٹ قبول کرچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب مغلوں کو سلیبس سے ہٹایا جاتا ہے تو اسے کوئی دقت نہیں ہوتی ہے، اب وہ شاہکار اسلامی عمارتوں کی حقیقت پر ڈیبیٹ سننے کے لئے نہ صرف آمادہ ہے، بلکہ اس کی دلی خواہش ہے کہ سب کا ہندو کرن ہوجائے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ محبت کی نشانی پر انگلی اٹھائی جائے اور وہ خاموش تماشائی بنا رہے۔
سنگھ کے لٹریچر نے اکثریتی طبقے کے دماغ کو انفیریارٹی کمپلیکس کا شکار بنا دیا ہے، اس کو لگتا ہے کہ اب اس کمپلکس کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر ممکنہ طریقے سے ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جائے، پھر چاہے وہ شناخت سے جڑی چیزوں پر حملہ کے ذریعہ ہو، یا کھانے سے ، یا پھر گھر گرانے سے۔
یہ سب کب تک چلتا رہے گا؟
جس طرح کا لٹریچر اکثریتی طبقہ کو گھول کر پلایا گیا ہے، مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس کا نشہ اتنی آسانی سے اترنے والا ہے، سب ایک موہ مایا کے شکار ہوچکے ہیں، اور جو نہیں ہوئے ہیں وہ خاموش تماشائی بنے کھڑے ہیں، اس نفرت کا اینڈ رزلٹ کیا ہوگا یہ تو نہیں پتہ، مگر اس نفرت کو پھیلانے کا جو پروسیس ہے اسے دیکھ کر مستقبل کے بارے میں کوئی خوش گمانی نہیں پالی جا سکتی ہے، میں نے جتنے تجزیے پڑھے اس کی روشنی میں دو باتیں ضرور کہی جا سکتی ہیں کہ یا تو لبنان والی حالت ہوسکتی ہے، اس طرح سے کہ دونوں گروہ آپس میں بھڑ جائیں، اور ایک لمبے عرصے تک تباہی اور بربادی کا سامنا کرنے کے بعد عقل آئے اور پھر سے گنگا جمنی تہذیب کی دہائی شروع ہو، کیونکہ یہی تاریخ ہے، اور تاریخ کا پہیہ اسی طرح گھومتا ہے، ہمیشہ تاریخ میں حالات یکساں نہیں رہتے، ہمیشہ امن و امان قائم نہیں رہتا، تہذیبوں کا تصادم ہوتا ہے، گرد اڑتی ہے، پھر جب گرد بیٹھتی ہے تب سمجھ آتا ہے کہ کیا کھویا کیا پایا، پھر تجزیے ہوتے ہیں اور دوبارہ ایسی سیچویشن نہ پیدا کرنے کے لئے وعدے عود۔
دوسری سیچویشن سری لنکا والی بھی ہو سکتی ہے اس طرح کے مہنگائی اس قدر بڑھ جائے کہ فنانشیل ایمرجنسی لاگو ہوجائے، کاروبار ٹھپ ہوجائے، پانی پینا تک مشکل ہوجائے، اس وقت جا کر شاید کچھ عقل آئے، شاید ہندو مسلم کا بھوت اس وقت اترے، جس طرح کے حالات ہیں فی الحال اس کا امکان کم ہی دکھتا ہے، ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، اکونومک کرائسس کا امکان نہیں ہے، اور اگر ایسا ہوتا ہے بھی ہے تو ہندوستان سروائیو کر سکتا ہے، اہم یہ کہ کموڈٹی پرائسز ہائی ضرور ہوجائیں گے، مگر عوام کے ذہن پر اس کا کتنا اثر پڑے گا کہنا مشکل ہے، کیا اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ عوام الناس کو سڑکوں پر لے آنے کے لئے کافی ہوگا، اس پر کچھ کہنا ابھی مشکل ہے۔
ایک تیسری سچویشن یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہوجائے، اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے، نفرتیں ختم ہوجائے، محبتوں کے دیپ جلنے لگیں، پرانا ہندوستان پھر سے لوٹ آئے۔
مستقبل میں حالات کیسے بنیں گے، اس پر صرف اندازے لگائے جاسکتے ہیں، حتمی اور یقینی بات صرف خدائے واحد کو پتہ ہے، بہرحال ہر امکان کو ذہن میں رکھ کر چلنا بہتر ہوگا۔
عزیر احمد
مئی ۲۰۲۲
