بات شروع کی تھی میں نے کچھ اور، اہالیان جبہ و قبہ نے اسے کوئی اور رخ دیدیا، کسی کا طعنہ کہ فرسٹریشن ہے، کسی کا طعنہ کہ میں نے مدرسے میں کچھ پڑھا ہوتا تو یہ باتیں نہیں کہتا، کسی کا طعنہ جب کہ آدمی کچھ نہیں کرپاتا ہے تو اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرا مدرسے کے سر پھوڑتا ہے، کسی کا طعنہ مجھے مدرسے سے نفرت ہے، عجیب عجیب لاجک، عجیب عجیب دلائل، کیا بولا جائے، کیا لکھا جائے، مدرسے کے فضائل، علماء کی حمایت میں میری تحریریں ہیں، مگر بس وہی ہے کہ بات سننے سے زیادہ لے اڑنا ہے، بھائی صاحب میں الحمد للہ اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں، اس کے لئے کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں، اصل میرا مقصود و مطلوب طلباء کی رہنمائی کرنا تھا، اپنا تجربہ شئیر کرنا تھا، خاص کر ان طلباء کے ساتھ جو اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹی وغیرہ کا رخ کرنا چاہتے ہیں اور انہیں بعد میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن میری اس تحریر کو مدرسہ مخالف بنایا دیا گیا، ہم ہر چیز کو اپنے مخالف سمجھنا کب بند کریں گے؟ میرے ایک عزیز ہیں، الحمد للہ جامعہ سلفیہ سے عالم، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے برج کورس، اسی سال ان کا ایڈمیشن علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں ہوا، وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ عزیر بھائی میرے پاس مدرسے کی ڈگری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایل۔ایل۔بی کرنے کے بعد بھی مستقبل میں مجھے دشواری کا سامنا کرنا پڑے، میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے یہ کہنے کے کہ ان شاء اللہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح ایسی بے شمار کہانیاں بکھری پڑی ہیں، تو میری تحریر کے اصل ٹارگیٹیڈ آڈینس وہی تھے جن کے خواب مدرسے کی چاردیواری تک محدود نہیں رہتے ہیں، یا جو شاید مدرسے کی تعلیم کے بعد مزید کچھ کرنا چاہتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ مدرسے کے بچے اب یونیورسٹیوں میں نہیں جاتے، جا کر دیکھئے، لائن لگی رہتی ہے، کمپٹیشن اور کٹ آف کتنا جاتا ہے، کبھی یونیورسٹیوں میں جا کر مشاہدہ کیجئے، یہ للہ فی اللہ کا خواب دکھانے والے بہت ہوتے ہیں، اچھے مستقبل کی خواہش تقریبا ہر طالب علم کی ہوتی ہے، تو "رئیلٹی" کو قبول کرنے کے بجائے الٹا لعن طعن شروع کردینا کہاں کی خیرخواہی ہے؟
مدرسے کے بچے یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے، اس حقیقت کا انکار کرنا شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپانا ہے، ان کی اسناد بھی قبول ہوتی ہے، لیکن صرف انہیں یونیورسٹیوں میں جہاں سے معادلہ ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف عربی فارسی پڑھ سکتے ہیں، آرٹس اور ہیومانیٹیز کے اکثر وہ کورسیز جن میں میتھ کا استعمال نہیں ہوتا ہے، اگر وہ مقابلہ جاتی امتحان نکال لے جائیں تو انہیں مدارس کے سند کی بنیاد پر ہی وہ پڑھنے کے اہل ہو سکتے ہیں، اسی طرح کوئی بھی زبان سیکھ سکتے ہیں، اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ مدرسے کا طالب علم جامعہ ملیہ میں فرنچ، اسپینش اور دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ ہسٹری، پولیٹیکل سائنس، سوشیالوجی اور دیگر کورسیز میں فارم ڈال سکتا ہے، ایڈمیشن لے سکتا ہے، بی۔اے، ایم۔اے یہاں تک کہ پی ایچ ڈی بھی کر سکتا ہے، لیکن وہی طالب علم جب جامعہ ملیہ کے علاوہ کسی دوسری یونیورسٹی میں اپلائی کرے گا تو اس کے پاس اسٹیٹ سے مانیتا پراپت ٹین پلس ٹو کی ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص کرکے وہ مدارس کے طلباء تو اور زیادہ دشواری کا سامنا کرتے ہیں جنہیں ثانویہ کی ڈگری ہی نہیں دی جاتی ہے، جن کے یہاں ڈائریکٹ عالمیت کی سند تھمائی جاتی ہے۔
تو اس بات کو قبول کرلینے میں آخر کون سی انا مانع ہے کہ بھائی پریشانی ہے؟ جب کہ حقیقت حال اسی کی گواہی دیتی ہے۔ اور اس کا سمادھان بھی موجود ہے، سمادھان صرف اتنا ہی ہے کہ یا تو مدارس اپنے یہاں بورڈز کے امتحانات دینے کی فیسیلٹی مہیا کرا دیں، جیسے کہ معلوم ہوا کہ الحمد للہ سنابل نے اس کی پہل کردی ہے، یا اگر نہ کرا سکیں تو کم سے کم ان طلباء پر زور و زبردستی نہ کریں جو امتحان دینا چاہیں، اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا پھر اس میدان میں خالص ہی لوگ بچیں گے، جنہوں نے خلوص و للہیت کے ساتھ اس کو اپنایا ہوگا۔
جو بھی طلباء مدرسے میں اس وقت علم حاصل کر رہے ہیں، اور ان کا مطمح نظر صرف دینی تعلیم نہیں ہے، بلکہ وہ مزید علم حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا یونیورسٹی کا رخ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے میرا مشورہ یہی ہے کہ کسی کے بہکاوے نہ آئیں، مدرسے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اوپن اسکولنگ کے ذریعہ یا تو ٹین پلس ٹو کرلیں، یا کم از کم مدرسہ بورڈ کی سند لے لیں، تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
باقی جن کا پیٹ بھرا ہوا ہے، جو سعودیہ کی کسی یونیورسٹی میں مدرسے کی ڈگری سے پروفیسر ہو چکے ہوں، یا خود مدرسہ چھوڑ کر ڈاکٹر انجینئر کی سند لے چکے ہوں، اور لائف انجوائے کر رہے ہوں، وہ ہمیں فرسٹریشن کا طعنہ دے سکتے ہیں، یا مدرسہ والوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگا سکتے ہیں۔
سب آزاد ہیں۔
میرا مشورہ انہیں طلباء کے لئے جو حقیقت میں اپنے مستقبل کے تئیں پریشان رہتے ہیں۔
بقیہ کیرئر کاؤنسلنگ کے تعلق سے پھر کبھی۔
عزیر احمد
اگست ۲۰۲۲
