مسلمانوں میں ایک طبقہ اس قدر اپولیجٹک واقع ہوا ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی اسلاموفوبیا پر مبنی واقعہ ہو، اس کا سارا تجزیہ بس یہی سنکیت دیتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے ذمہ دار مسلمان ہیں، یہ طبقہ دفاعی پوزیشن کو کچھ اس طرح اختیار کرتا ہے کہ اس کی تیروں کا رخ ہمیشہ اپنوں کی طرف ہی مڑ جاتا ہے، حالانکہ اس طبقے کی پرابلم یہ ہے کہ اس کو نہیں پتہ ہے کہ اس کا جو تجزیہ ہے وہ اس کے ڈر کی وجہ سے ہے، نہ کہ یہ کوئی لبرل اور سیکولر بیانیہ ہے، وہ اتنا ڈرا اور سہما ہوا ہے کہ خبریں جب اس کے سامنے شئیر کی جاتی ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہوں اور شئیر کرنے والے پر ہی مسلمانوں میں ڈر پھیلانے کا الزام رکھ دیتا ہے، پھر وہ اس کا یوں تجزیہ کرتا ہے کہ یہ یکا دکا واقعات ہیں، اور اس کے وقوع پذیر ہونے کے پیچھے بھی مسلمانوں کی اپنی نالائقی ہے، ان کے اندر بھی یہی ساری برائیں ہیں، وہ بھی ظلم کرتے ہیں۔ ان کو بتاؤ کہ جہانگیر پوری میں گھر توڑ دیا گیا، تو کہیں گے نہیں ، آپ سوشل میڈیا پر خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں، ان کو بتاؤ مدھیہ پردیش میں وزیر داخلہ عدالت کے لہجے میں بول رہا ہے، اور گھر توڑ رہا ہے تو کہیں گے نہیں نہیں ہندو اب بھی سیکولر ہے، آپ ڈر پھیلا رہے ہیں، آپ سنگھی مسلمان ہیں، یہ ملک جنت ہے، آپ خواہ مخواہ پریشان ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے بھلا کہ دونوں باتوں میں کوئی تعلق ہے بھی کیا؟ ایک طرف ظلم ہورہا ہے، آپ اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ خبروں کے شئیر کرنے سے آپ کے سیکولرزم پر آنچ لگتی ہے، تو اصل ڈرا ہوا کون ہے؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
کوئی بھی حادثہ جب ہوتا ہے، تو اس کے لئے روٹ کاز تلاش کیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے، جب لکھا جاتا ہے ہندوستان میں حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت میں اضافہ ہوا ہے، تو اس کا روٹ کاز یہ طبقہ یہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے چونکہ دعوت کا کام اچھے سے نہیں کیا اس لئے نفرت میں اضافہ ہوا ہے، مسلمانوں نے فلانے ڈھکانے سے تعلقات نہیں بڑھائے، ان کے ساتھ اٹھک بیٹھک نہیں لگائی، اس لئے نفرت میں اضافہ ہوا ہے، کاش ان تجزیہ نگاروں کو کوئی بتائے کہ کبھی موقع نکال کر آر۔ایس۔ایس سے وابستہ لوگوں بھی پڑھ لیا کریں، وہ آپ کو بتائیں گے کہ نفرت کی اصل وجہ کیا ہے۔
نفرت کی اصل وجہ آپ کا قرآن ہے، جی ہاں چونکئے مت، کیسے ہے، ابھی لکھتا ہوں، فی الحال اتنا سمجھئے کہ نفرت کی اصل وجہ آپ کا وجود ہے، آپ کی تاریخ ہے، آپ کی مغلیہ سلطنت ہے، ہندوستان پر آپ کے حملے اور آپ کی حکومت ہے، مکمل ایک تاریخی پروسیس ہے، کس کس سے بھاگیں گے آپ۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک پورا بیانیہ پھیلا جایا رہا ہے، اور اکثریتی طبقہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے قبول کرتا جارہا ہے، ایک زمانہ تھا کہ فیض انقلابی شاعر کہے جاتے تھے، اٹل جی ان کا استقبال کرتے تھے، آج وہ سلیبس سے غائب ہورہے ہیں، مغل کوتاریخ میں مختصر کیا جارہا ہے، چنگیز خان کو عظیم حکمران کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، ہلاکو خان کے قصیدے لکھے جارہے ہیں ، کیوں؟ کیونکہ اس نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی، یہ سب کچھ ہورہا ہے، اور اکثریتی طبقہ بغیر چوں چرا کے سب کچھ تسلیم کئے جارہا ہے، میرے پاس اکثریتی طبقہ کے کرپٹ ہونے کے تعلق سے سینکڑوں دلائل ہیں، گزشتہ دور حکومت میں یوگی جی نام تبدیل کر رہے تھے، نام کی تبدیلی لوگوں کو محض ایک واقعہ لگ رہا تھا ، لوگ اس کا ٹھٹھہ اور مذاق بنا رہے تھے، اب انہیں کون بتائے کہ نام کا تعلق تہذیب اور ثقافت سے ہے، نام کو ختم کرکے ایک پورے کلچر کو ختم کیا جارہا ہے، لانگ ٹرم میں اس کے ایفکٹ کو سوچئے، پھر شاید ہنسی غائب ہوجائے۔
مسلمان تنہا نفرت سے نہیں لڑ سکتا ہے، اگر اکثریتی طبقہ فرقہ پرست ہوجائے، تو اقلیتی طبقہ جمہوریت کے حفاظت کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ لوگ کہتے ہیں مسلمانوں کو اس نفرت کا مقابلہ کرنا ہوگا، میں کہتا ہوں جب تک ہندو بھائی اس نفرت کا مقابلہ کرنے کے لئے سڑکوں پر نہیں اتریں گے، تب تک کچھ نہیں ہوسکتا، آپ شاہین باغ بنائیں گے، آپ سامپردائک قرار دے دئیے جائیں گے، آپ ہاتھوں میں سنودھان لے کر دوڑیں گے، آپ پر اس کے غلط استعمال کا الزام رکھ دیا جائے گا۔
بہرحال بات کہیں اور نکل گئی، نفرت کے تعلق سے عرض کر رہا تھا کہ جو ہندو ایلیٹ طبقہ ہے وہ نفرت کو کہاں سے اور کب سے دیکھ رہا ہے، ۱۵ اپریل کو ایس وائی قریشی نے نفرت کے تعلق سے انڈین ایکسپریس میں ایک آرٹیکل لکھا جس کے جواب میں ’بلبیر پنج‘ سابق ممبر پارلمنٹ اور کالم نگار نے مضمون لکھا، اس میں وہ دبے لفظوں میں قرآن پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نفرت اور تعصب کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے، ان کی پرورش و پرداخت میں ان فرقہ وارانہ عقائد و نظریات کا بہت اہم رول ہے جولوگوں کے درمیان رنگ، نسل، ذات، جگہ، جنس، عقیدہ کی بنیاد پر تفریق کرتے ہیں، اور لوگوں کی مؤمنین اور غیر مؤمنین بشمول مشرکین کی کٹیگری میں تقسیم کرتے ہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں قدیم زمانے سے ہی ویدک کہاوت ’یکم سد وپرا بہودا ویدانتی‘سے متأثر روایات رہی ہیں ، یعنی سچائی ایک ہی ہے، مگر اہل علم اسے کئی ناموں سے پکارتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی معاشرے نے زندگی کے کسی بھی پہلو میں یکسانیت کا مطالبہ نہیں کیا، ہندوستانی فسلفہ ہمیشہ سے مختلف نظریات اور روایات کا مجموعہ رہا ہے، بسا اوقات متضاد لیکن ہمیشہ ہم آہنگ ماحول کا حصہ۔
تاہم ،ہندوستانی معاشرے کی اس مساوات کو حملہ آور عقائد کے ذریعہ تباہ و برباد کردیا گیا، جن کا دعوی تھا کہ صرف ان کا خدا اور رسول ہی سچے ہیں، ان کے علاوہ باقی سب اپنے پیروکاروں اور عبادت گاہوں کے ساتھ باطل اور تباہی کے لائق ہیں۔ اس طرح کی سب سے پہلی دراندازی ۷۱۲ میں ہوئی، جب محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا، اور جیسا کہ چچ نامہ میں بیان کیا گیا ہے کہ محمد نے مقامی ہندؤوں کے ساتھ ذمیوں جیسا سلوک کرنا شروع کیا اور ان کے اوپر اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے سزا کے طور جزیہ دینے پر مجبور کرنے کا رواج متعارف کروایا، اس طرح ہندوستان میں ایک خاص مذہب کے تئیں ’نفرت اور تعصب‘ کی ابتدا ہوئی جو کہ اس سے پہلے ابھی تک اس وائرس سے پاک تھا۔
پھر بلبیر جی اس بیانئے کو مزید سہارا دینے کے لئے گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی علیہ الرحمہ کے حملوں کا سہارا لیتے ہیں، کہ کس طرح تخت پر چڑھنے کے بعد انہوں نے قسم کھائی کی کہ ہر سال ہندوستانی مشرکین کے خلاف جہاد چھیڑیں گے، اور اپنی بتیس سالہ دور حکومت میں درجنوں بار حملہ کرکے کس طرح انہوں نے اپنے وعدے کو پورا کیا، باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔
پھر وہ تاریخ کے پنوں سے گزرتے ہوئے گزشتہ صدی کے واقعات و حوداث کو زیر قلم لاکر بین السطور یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں مسلمانوں کے خلاف عصر حاضر کا وائلنس گزشتہ صدیوں کا نتیجہ ہے، وہ موپلاہ فسادات اور تقسیم ہند کو یاد کرتے ہیں، اور افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر گھاٹی سے ہندؤوں اور سکھوں کے خاتمے کا تذکرہ کرتے ہیں، پھر اس کے بعد حالیہ رام نومی پر حملوں کو روتے ہیں۔
بلبیر جی اس کے بعد دو تین سوالات قائم کرکے یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندو مسلم فسادات نئے نہیں ہیں، ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے، اور ایسا نہیں ہے کہ مسلمان معصوم ہوتے ہیں، آدھے سچ کو جان کر ری ایکشن دینا صرف اسٹیبلمشنٹ کو چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش ہے۔
آپ پڑھئیے اور سوچئے کہ آپ کا دشمن کس قدر ہوشیار ہے، وہ بین السطور کیا بیانیہ پھیلا رہا ہے، اسے آپ کے ایمان اور عقیدے تک سے پرابلم ہے، پوری میڈیا مشینری حالیہ دنوں میں یہ سوال اٹھا رہی تھی کہ صرف اللہ ہی بڑا کیوں ہے؟ میں کیوں اس بات کو دن میں پانچ مرتبہ سنوں؟ گزشتہ دنوں گرو تیج بہادر کی برسی پر لال قلعہ سے خطاب کرکے اور اورنگزیب علیہ الرحمہ کا تذکرہ کرکے مودی جی نےاپنا ویزن کلئیر کردیا ہے کہ ابھی یہی سب کچھ چلتا رہے گا، جب تک عام ہندو فرنٹ پر نہیں آئے گا، جب تک وہ نہیں بولے گا کہ نفرت کی سیاست بہت ہوئی، اسی طرح زہر بویا جاتا رہے گا، جو ریاستیں، علاقے، لوگ ابھی محفوظ ہیں ، دھیرے دھیرے کرکے سب اسی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوتے جائیں گے۔
عزیر احمد
اپریل ۲۰۲۲
