مدرسے کی ڈگری (۲)


 ہرشخص کے پاس ایک کہانی ہوتی ہے، مجھے نہیں پتہ کہ مجھے اپنی کہانی کہنی چاہئے یا نہیں، حقیقت یہ ہے ابھی تک زندگی میں کچھ اتنا بڑا تو کئے نہیں ہیں کہ ہماری زندگی بھی کہانی کی طرح سنی اور پڑھی جانی لگے، لیکن کچھ باتیں ہیں جو کہنی ضروری ہیں تاکہ مدرسے کے وہ بچے جو خواب دیکھ رہے ہیں انہیں اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے کسی اڑچن کا سامنا نہ کرنا پڑا، بات ان دنوں کی ہے جب ہم خیر العلوم میں زیر تعلیم تھے، خیرالعلوم ضلع سدھارتھ نگر کا ایک مشہور و معروف ادارہ ہے، یہ ادارہ طلباء مدارس کو بہت بہت پہلے سے ہی ٹیکنکل کورسز مہیا کرا رہا ہے، ان دنوں خیر العلوم شیخ صفی اللہ مدنی صاحب حفظہ اللہ و تولاہ کے زیر صدارت تھا، شیخ صاحب حفظہ اللہ طلباء پر نہایت ہی مہربان تھے، انہوں نے ان طلباء کو باقاعدہ باہر جانے کی اجازت دے رکھی تھی جو کوئی ٹیوشن وغیرہ لینا چاہتے تھے، یا کوئی ٹیکنکل کورس سیکھنا چاہتے تھے، مدرسوں میں بہت سارے ایسے ساتذہ بھی ہوتے ہیں جو طلباء کے ہاتھوں میں اگر انگریزی کی کوئی کتاب دیکھ لیں تو اپنی نظروں سے اسے یہی باور کرائیں گے کہ گویا طالب علم نے کوئی غیر اسلامی کام کردیا ہو۔ جب کہ شیخ صفی اللہ صاحب اس معاملے میں بہت وسیع ذہن کے حامل تھے، اپنے اقوال و افعال سے طلباء کو مزید طلب علم پر ابھارتے تھے، مجھے یاد پڑتا ہے ایک مرتبہ شیخ حفظہ اللہ کلاس میں آئے ، باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا ’’جارڈن‘‘ کہاں ہیں، اور عربی میں اسے کس ملک کو کہتے ہیں، ہم لوگ نہیں بتا پائے، سر جھکائے بیٹھے رہے، شیخ صاحب نے تھوڑا انتظار کیا پھر کہا کہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو ایک قطرہ خوں بھی نہ نکلا، بہت شور کرتے ہیں کہ ہم یہ پڑھتے ہیں، ہم وہ پڑھتے ہیں، یہی نہیں پتہ کہ جارڈن عربی میں کس ملک کا نام ہے۔
ان کی بات میرے دل کو لگی، میں نے سسٹیمیٹک انداز سے محنت کرنا شروع کردیا، کیونکہ میں اپنے فیوچر کو لے کر بہت کلئیر تھا، میں نے اپنے خاندان میں دیکھا تھا کہ کس طرح میرے ایک ماموں زاد بھائی نے جامعہ سلفیہ سے پڑھائی کری، پھر جے۔این۔یو سے ایم۔فل تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد وہ قطر میں ایک اعلی عہدے پر فائز ہوگئے، تو میرے سامنے ایک آئڈئیل موجود تھا، مجھے اسی کو دیکھ کر پڑھنا تھا، مجھے پتہ تھا کہ جامعہ سلفیہ کے سند سے اعلی تعلیم کی حصولیابی میں آسانی ہوجاتی ہے، سو میں نے وہی کیا، ہاں اس درمیان کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ مدرسہ بورڈ کا امتحان دیدو تو زیادہ آسانی ہوجائے گی۔ ایک مرتبہ میں نے دیا تو نام غلط آ گیا، پھر میں نے سوچا کہ کیا فائدہ، ویسے بھی میرے پاس سلفیہ کی سند تو ہو ہی جائے گی، اور میرا کام بآسانی نکل جائے گا، الحمد للہ پڑھتا گیا، راستے ہموار ہوتے چلے گئے، خیر العلوم سے سلفیہ، سلفیہ سے جامعہ، جامعہ سے جے۔این۔یو، جے۔این۔یو سے ہائی ٹیک سٹی بنگلور تک کا سفر الحمد للہ بہت شاندار رہا، مزید کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ کچھ اور ہوجائے تو کچھ اور ہوجائے۔ خواب دیکھنے بند نہیں ہوئے ہیں۔
اب کوئی اس کا بھی الٹا مطلب نہ نکال نہ لے کہ تھوڑی بہت کامیابی کیا ملی، دانشور بن گئے، نہیں بالکل نہیں، میں کامیاب نہیں ہوں، میں بہت ناکام انسان ہوں، جاب کا حصول میرا مطمح نظر کبھی تھا ہی نہیں، میرے عزائم میرے مقاصد کچھ اور ہیں، نہیں پتہ کہ کبھی کامیاب ہوپائیں گے کہ نہیں۔
مطلوب و مقصود میرا واضح ہے، یار لوگوں نے میرا ایک جملہ پکڑ کر اسے دوسرا رخ دیدیا، کہتے ہیں مدرسے میں دو ڈھائی فیصد ہی طلبا پڑھتے ہیں، ارے بھائی تو کیا ہوگیا ڈھائی فیصد پڑھتے ہیں، دو ڈھائی فیصد میں سے کیا سب لوگ سعودیہ جا کر دکاترہ بن جاتے ہیں، کیا سب لوگ عربوں کو عربی سکھانے لگ جاتے ہیں، ندوہ اور دیوبند سے پڑھے لوگ کہاں جاتے ہیں، اصلاح اور فلاح سے پڑھے لوگ کہاں جاتے ہیں، کچھ ہم جیسے گھامڑ بھی تو ہوتے ہیں جن کا مطمح نظر دین دنیا دونوں ہوتا ہے، جو ایسی کوالٹی ایجوکیشن چاہتے ہیں کہ دین سے بھی نابلد نہ رہ جائیں، اور دنیا بھی حاصل کرلیں، یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہے، جب سے مدرسے قائم ہوئے ہیں، ڈیٹا نکال لیں، ایک بڑی تعداد میں آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے مدرسے کی تعلیم کے بعد یونیورسٹی کا رخ کیا اور ڈاکٹر بنے، پروفیسر بنے، صحافی بنے، خود میرے جاننے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے مدرسے کی تعلیم کے بعد الحمد للہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے، ہمارے دکتور سعد بھائی ہیں جنہوں نے مدرسے کی تعلیم کے بعد جے۔این۔یو ہی سے انٹرنیشنل اسٹڈیز میں پی۔ایچ۔ڈی کری،۔ ہمارے شاہد بھائی ہیں جنہوں نے مدرسے کی پڑھائی کے یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی، ہمارے ایک عزیز ہیں انہوں نے برج کورس کے بعد معاشیات سے پڑھائی کی، ابھی وہ انٹرنیشنل آرگنائزیشن میں کام کر رہے ہیں، ہمارے سہیل بھائی ہیں جو وائس آف امریکہ کے لئے کام کر رہے ہیں، میرا ایک عزیز دوست ہے جو تقریبا دس سے زائد زبانیں سیکھ چکا ہے، جن میں عبرانی بھی شامل ہے، ہمارے ایک بھائی ہیں جنہوں نے مدرسے سے پڑھنے کے بعد کمپیوٹر اپلیکیشن میں ڈگری حاصل کیا، کتنی ایسی کامیابی کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں، کہ وہ لوگ مدرسے سے نکل کر آئے اور انہوں نے جھنڈے گاڑ دئیے، اور یہ کرنے والے انہیں دو ڈھائی فیصد میں سے لوگ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مکمل دینی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد عصری علوم کا رخ کیا۔ سو جب مدرسے کے بچے اتنا کچھ کر رہے ہیں، اور اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ مدرسے والے اس پر فخر بھی کرتے ہیں کہ دیکھو ہمارے طلباء کہاں کہاں ہیں، تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ محض تھوڑی سی دقت برداشت کرکے ان کے لئے ٹین پلس ٹو کے مساوی ڈگری کا انتظام نہیں کیا جا سکتا؟؟ جب کہ بہت سارے مدرسے کر بھی رہے ہیں۔
ویج ، نان ویج کی بات کرنا، کانوینٹ اسکولوں سے اس کا تقابل کرنا، بہار جانے کے لئے ویشانی ٹرین پکڑوانا، کیا ہے یہ سب؟ یہ اور جیسے سارے تشبیہات محض ذمہ داری سے فرار اور ضرورتوں سے منہ چھپانے کے لئے ہے، ورنہ سب کو پتہ ہے کہ دنیا میں بنیادی تعلیم اور اس کے بعد اختصاص کا نطام کیا ہے، کیسا ہے؟؟ ٹین پلس ٹو یہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری تعلیم ہے، اختصاص کا زمانہ تو اس کے بعد کا ہے۔ کیا آپ کو نہیں پتہ کہ کانوینٹ اسکول میں پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ کی دلچسپی ’’اسلامیات‘‘ میں ہو تو آپ کسی بھی ملکی یا غیر ملکی یونیورسٹی سے اسلامیات میں گریجویشن یا پی ایچ ڈی تک کر سکتے ہیں۔
اصل چیز صحیح جانکاری کا نہ ہونا ہے، شاید لوگوں کو نہیں معلوم کہ مدرسہ اسٹیٹ بورڈ یا بذات خود مدرسہ کی سند جو کسی یونیورسٹی سے اپروو ہو، وہ اس یونیورسٹی میں ہائر سیکنڈری کے اسکول کے آرٹس کے مضامین کے مماثل ہوتے ہیں، اور اس سے طلباء ان تمام کورسوں میں ایڈمیشن لینے کے اہل ہوسکتے ہیں جن سے وہ ہائر سیکنڈری اسکول کے آرٹس مضامین کے ذریعہ لے سکتے ہیں، اور پھر گریجویشن کی بنیاد پر وہ مینیجمنٹ اور جرنلزم جیسے پروفیشنل کورسز میں بھی جا سکتے ہیں۔ دوران تعلیم کہیں بھی کوئی بھی دقت نہیں آتی ہے، اصل دقت بعد میں شروع ہوسکتی ہے جب کہیں ٹین پلس ٹو دکھانے کی نوبت آئے اور اسٹیٹ اپرووڈ ڈگری نہ ہو۔
اس لئے اس بات ہونی ضروری ہے کہ اگر اہم طالب علم کو دس سال رکھتے ہیں، مگر اسے ایسی ڈگری دے کر رخصت کرتے ہیں کہ اس سے پاسپورٹ بھی نہ بن پائے تو کیا یہ اہل مدارس کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ان کے لئے اسٹیٹ اپرووڈ ڈگری کا انتظام کروائیں، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت منع کرتی ہے کہ نہیں جو لوگ مدرسےمیں پڑھ رہے ہیں وہ اسٹیٹ بورڈ کی ڈگری نہیں لے سکتے، جب گورنمنٹ نے یہ سودھا دی ہوئی ہے تو اسے بچوں کو مہیا کرانے میں کیا تکلیف ہے؟ اور اس حقیقت کا علم ہونے کے بعد بھی کہ آپ کے ڈگری کی کیا ویلیو ہے، آپ اس سے پہلوتہی برتیں، یا اس نہج پر سوچنے والے کے چلاف مہم چلادیں، اسے مدرسہ مخالف قرار دیدیں، کہاں کی دانشمندی ہے یہ؟
میں اور میرے جیسے بہت سے لوگ ہوں گے جو یہ چاہتے ہوں گے کہ ان کے بچے دین کا بھی علم حاصل کرلیں، مگر ان کا یہ دینی علم ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، تو پھر اگر اہل مدارس اگزام دینے کی بھی چھوٹ نہیں دیں، تیاری کرانے کی تو بات ہی مت کیجئے، تو پھر لوگ اپنے بچوں کو محض دینی حمیت کی بنیاد پر مدرسوں میں کیسے داخل کریں گے؟؟
آپ کہتے ہیں راستہ بدل لیں، راستہ بدل لیں گے تو پھر آپ کہیں گے کہ ملحد ہوگئے، تو آخر ایسا انتطام کرنے میں کیا مانع ہے کہ بچے ملحد بھی نہ ہوں ، اور دنیاوی زندگی میں کامیاب بھی ہوجائیں۔
یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں مدرسوں سے مطالبہ کر رہا ہوں کہ مدرسے ڈاکٹر انجینئر پیدا کریں، بھائی مدرسے ڈاکٹر انجنئیر پیدا کر ہی نہیں سکتے، اس کے لئے وہاں پر بنیادی تعلیم ہی نہیں ہے، ہاں اس سے آرٹس اور ہیومانٹیز کے وہ کورسیز کئے جا سکتے ہیں جن میں میتھ کا استعمال نہیں ہوتا ہے، نیتوں کا معاملہ تو بس اللہ جانتا ہے، مگر وضاحت ضروری ہے، میرا مقصد مدرسوں کو ڈاؤنگریڈ کرنا ہرگز نہیں، یا انہیں ختم کرکے کچھ نیا نظام تعلیم لانا، یہ سب کم سے کم میں کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، میرا مقصد صرف طلباء کی رہنمائی کرنا اور ذمہ داران مدارس کو یہ بتلانا ہے کہ تھوڑی چھوٹ دیدیا کریں تاکہ مستقبل میں انہیں ڈھائی فیصد میں سے کچھ لوگوں کو پریشانی نہ ہو۔ لوگ ردی کا ٹکڑا کہنے کی وجہ سے چیں بہ جبیں ہیں، ارے بھائی جب اس سے پاسپورٹ نہیں بن سکتا تو وہ ردی کا ٹکڑا ہی تو ہے، اتنی عقیدت کاہے وابستہ کر رہے ہیں کہ اس جملے کی وجہ سے مجھے دوبارہ مسلمان ہونا پڑے۔
باقی آج جو لوگ مخالفت کر رہے ہیں، کل کو اگر یہی لوگ اپنے بچوں کو مدرسے میں پڑھائیں گے، اور پھر اعلی تعلیم کے لئے عصری اداروں کے خواہاں ہوں گے تو انہیں بھی انہیں سب رہنمائیوں کی ضرورت پڑے گی۔
عزیر احمد
اگست ۲۰۲۲

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی