جب بعض لوگوں کی جانب سے اہل مدارس کو مشورہ دیا جاتا تھا کہ بھئی اصلاح کیجئے، کچھ چیزیں اب نہیں چل پائیں گی، تو ڈھائی فیصد تین فیصد کا حوالہ دیکر الٹا مشورہ دینے والے پر سوال کھڑا کردیا جاتا تھا، اب کیمرے کا رخ مدرسوں کی طرف ہوچکا ہے، اب جھیلئے، ایک ویڈیو میں نے دیکھا، وہ پوچھ رہا ہے آپ کیا پڑھ رہے ہیں، طالب علم جواب دے رہا ہے "تکمیل افتاء"، اس نے پوچھا بھئی اسے ہندی میں بتائیے، طالب علم بیچارہ جواب ہی نہیں دے پارہا ہے، ایک کہہ رہا ہے فتوی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، مطلب ایسے ویڈیوز سامنے آرہے ہیں کہ کیا بولا جائے کیا سنا جائے۔
اپنے ہی ملک میں اجنبیوں کی طرح بنا دیئے گئے، زبان مختلف، لہجہ مختلف، لباس مختلف، ڈگری مختلف، برادران وطن کو کیا سمجھائیں گے کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ایک ویڈیو دیکھا، شاید حفظ کی کلاس تھی، طلباء سے پوچھ رہا ہے کس کلاس میں ہیں؟ وہ منہ دیکھ رہا ہے، کہہ رہا ہے انگلش پڑھتے ہیں؟ تو وہ ایپل کی اسپیلنگ سنا رہا ہے، اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی مسلم ملک میں اسی طرح پڑھائی کی جاتی ہے کہ کچھ طلباء کو مین اسٹریم سے بالکلیہ کاٹ دیا جاتا ہے؟ یہ عالمیت فضیلت کیا ہے بھائی؟ کیسے بتائیں گے؟ کیسے سمجھائیں گے؟
مدرسے مسلمانوں کا وہ عظیم سرمایہ تھے کہ ان کا صحیح استعمال ہوا ہوتا تو غیروں کو شاید ہنسنے کا موقع نہیں ملتا، اہالیان مدارس سر جوڑ کر بیٹھ سکتے تھے، نصاب پر باتیں ہوسکتیں تھیں، کچھ تبدیلیاں لائی جا سکتی تھیں، گورنمنٹ سے کچھ ایگریمنٹ کیا جا سکتا تھا، ایسا نہیں تھا کہ حل نہیں تھا، حل موجود تھا، مگر بس بات وہی تھی کہ جو بھی کوشش کرتا اسے مدرسوں کی تھالی میں کھا کر مدرسوں میں چھید کرنے والا بتا دیا جاتا؟
تو اب کیا کریں؟ اب تو ہوا کا رخ بدل چکا ہے؟ گورنمنٹ کی منشاء صاف ہے، یا مزاحمت کرو اور بلڈوزر تمہارا رخ کریں، یا پھر ان کے ہر کہے کو بجا لاؤ، اور کچھ تبدیلیاں کرو، یہ آڈٹ اور سروے سب اسی لئے ہورہا کہ نبض پکڑ میں آجائے، ویسے بھی ذمہ داران مدارس کی الحمد للہ کم خامیاں تو ہوتی نہیں ہیں، غلط حساب کتاب، پیسوں میں خرد برد، لین دین میں معاملات کا درست نہ ہونا ذمہ داران مدارس کی کچھ خاص خوبیاں ہیں، واللہ مدرسوں سے بے پناہ محبت ہے، مگر بعض نظماء کی کارستانیاں دیکھ لیں تو دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ ان مدرسوں کو تو بند ہوجانا چاہئے۔
بہرحال پورے ملک میں ایک بحث چھڑ گئی ہے، مدرسے پرائم شوز کا حصہ ہوگئے ہیں، اب یہ اہل مدارس پر ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں، کیا اسٹریٹجی اپنائی جاتی ہے، ظاہر سی بات ہے مدرسے ہماری "آئیڈنٹی" کا حصہ ہیں، سو سر جوڑ کر بیٹھنا لازمی ہے، اور ایک نئے اسٹرکچر اور نئے نظام کی بنیاد ڈالنا بھی ضروری ہے، نئی قومی تعلیمی پالیسی کو ذہن میں رکھ پرائمری، سیکنڈری، ہائر سکنڈری، گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی طرح نصاب کی ترتیب لازمی ہے، دس تک بندہ یہ پڑھے گا، پھر بارہ میں نصاب اس طرح مختلف ہوجائیں گے، پھر گریجویشن (اسے تخصص بھی پڑھ سکتے ہیں) کی ڈگری فلاں مدرسے سے دی جائے گی، فلاں مدرسے میں صرف ابتدائی تعلیم ہوگی، فلاں میں صرف بارہ تک تعلیم ہوگی، فلاں مدرسے میں پھر تخصص ہوگا، نظام، نصاب، ڈگری ان تینوں کے اسٹرکچر کی تبدیلی اب لازمی ہے، اس پر بات ہونی چاہئے، بہت مختصر میں میں نے خاکہ پیش کیا ہے، اس میں رنگ بھرے جا سکتے ہیں، اس سے مختلف اور الگ نظام بھی بنایا جا سکتا ہے جو دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کر سکے، ورنہ پھر کیا ہے۔ یوگی جی تو ابھی ہیں ہی، اگلے پچاس سال بعد کیا سیچویشن ہوگی تصور کرلیں۔
عزیر احمد
