ہمارا مسلم معاشرہ عورتوں کے تئیں افراط و تفریط کا شکار ہے، عدل ، احسان اور وسطیت کا جو کانسیپٹ ہے وہ کہیں نہ کہیں بس کتابوں میں ہی ہے، یا تو عورت کو اس قدر سر پر چڑھا لیاجاتا ہے کہ پھر اتارنا مشکل ہوجاتا ہے، یا عورت پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے جاتے ہیں کہ بچیوں کے لئے خودکشی جیسا شرمناک فعل بھی آسان لگنے لگتا ہے۔
گجرات کی عائشہ نے خودکشی کری تھی تو لگا تھا کہ مرتے وقت اس کی مسکراہٹ ہمارے دل و دماغ کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہوگی، ہمارا بیانیہ بدلے گا، عورتوں کے ساتھ ہمارا ٹریٹمنٹ بدلے گا، مگر ایسا تو کچھ ہوا نہیں، البتہ ہمارا کریم دماغ خاص کر ہمارے اہلیحدیث علماء کا سوشل میڈیائی طبقہ بے جا بحثوں میں الجھ گیا یا الجھا دیا گیا ، ایک کہہ رہا ہے نکاح کنٹریکٹ ہے، تو دوسرا بحث و تحقیق کے گھوڑے پر سوار ہو کر کہتا ہے کہ نہیں نہیں، سنو، بیوی مثل لونڈی ہے، اچھا ٹھیک ہے، سب سر تسلیم خم ہے، مگر کیا یہ نہیں لگتا کہ اس طرح کی بحثیں ظالموں کو مزید ظلم کرنےکا جواز فراہم کرتی ہیں؟
سر دست ایک واقعہ سن لیجئے، ایک ماہر اسلامی اسکالر اسلامی عائلی نظام پر لکھ رہے تھے اور اچھا خاصہ لکھ رہے تھے، ایک صاحب ان کی تحریروں سے اس قدر متأثر ہوئے کہ شادی سے پہلے ہی انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا دیا، اچھی خاصی فیملی بکھراؤ کا شکار ہوگئی۔
ڈاؤن دی لائن کہیں نہ کہیں اکثر مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسلام کا استعمال اسلام پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کے لئے کم اور اپنی مقصد بر آری کے لئے زیادہ کرتے ہیں، پہلے ہم ایک سوچ متعین کرتے ہیں، پھر اسی کے اعتبار سے دلائل ڈھونڈتے ہیں، اور مخالف دلائل پر نظر کرم تو دور اسے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے، پھر چاہے یہ پولیٹیکل اسلام کا معاملہ ہو یا دیگر امور عامہ سے متعلق افکار و نظریات کا۔
عملی زندگی پر نص کی تطبیق کرنے میں جب بھی اعتدال اور گراؤنڈ ریلیٹیز کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا، افراط و تفریط ہوتا رہے گا، ہمارے ایک نہایت ہی قریبی ساتھی ہیں، تحریک اسلامی سے متأثر ہیں، اچھا خاصہ دینی مزاج رکھتے ہیں، وہ شادی کرنے والے تھے، مجھے فون کیا کہ یار عزیر بھائی میں نہایت سادگی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، لڑکی والوں سے کچھ نہیں لینا چاہتا، اور ولیمہ میں زیادہ تام جھام نہیں رکھنا چاہتا، مگر میرے گھر والے راضی نہیں ہورہے، وہ رسم و رواج میں جکڑے ہوئے لوگ ہیں، سمجھانے جاتا ہوں تو کہتے ہیں دو اکشر کیا پڑھ لیا اپنے آپ کو بہت بڑا جانکار سمجھنے لگا، سارے خاندان کو نہیں انوائیٹ کریں گے، جشن نہیں منائیں گے، دکھاوا نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے، میرے پاس کوئی حل نہیں تھا، میں نےکہا دیکھئے اس معاملے کو جتنی نرمی سے حل کریں گے اتنا ہی بہتر ہوگا، برخلاف سختی دکھانے سے، دو تین بعد فون کئے کہ یار عزیر بھائی امی سے اسی مسئلے کو لے کر زبردست لڑائی ہوگئی ہے، میں نے کہا چھوڑ دیجئے، اگر آپ کی نیت میں ہے سادگی سے شادی کرنا تو اللہ ضرور آپ کو اس کا اجر دے گا، ورنہ ایک معاملہ درست کرنے کے چکر آپ کئی معاملے خراب کرلیں گے، میں نے کہا کہ آپ امی کے پاس جائیے، ان کو ایموشنلی بلیک میل کیجئے، اور کہئے کہ ٹھیک ہے آپ لوگوں کی مرضی دھوم دھام اور رسم و رواج کی پابندی کرنے میں ہے تو اپنا شوق پورا کرلیجئے، مگر جان لیجئے کہ اس میں میری کوئی خوشی شامل نہیں ہے، خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ریاست میں مکمل لاک ڈاؤن لگ گیا، اور شادی نہایت ہی سادگی سے کرنی پڑی۔
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو عائلی معاملات ہیں، یہ عبادات نہیں ہیں، ان سب میں بہت زیادہ سختی معاملات صحیح کرنے کے بجائے مزید بگاڑ دیتے ہیں، آپ نکاح کو کچھ بھی مانئے، بیوی کو لونڈی سمجھئے یا بیوی، مگر اس کا حق ضرور دیجئے، ہمارے معاشرے میں عورتوں پر جتنا ظلم ہوتا ہے، اکثر کہانیاں باہر نہیں آپاتی ہیں، کتنی لڑکیوں کو جہیز کی وجہ سے مار دیا جاتا ہے، کتنی لڑکیوں کی زندگیاں ان کے شوہر اجیرن کر رکھے ہوتے ہیں، آپ غلام اور لونڈی کہہ رہے ہیں، کبھی معاشرے میں اترئیے اور دیکھئے، ان سے بھی بدتر حالت میں ان کی زندگیاں ہوتی ہیں، مگر وہ کبھی بھی ہمارے ڈسکورس کا حصہ نہیں بن پاتی ہیں، انہیں لڑکیوں میں سے جب کوئی شاہ بانو بن جاتی ہے، یا انصاف کے حصول کے لئے غیروں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہیں تب ہم اسے ضرور اسلام خارج کرنے آ جاتے ہیں۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ عورتوں پر ظلم ہمارے معاشرے کا کڑوا سچ ہے، ابھی آپ کہیں گے ظلم سہتی کیوں ہیں، ان کو خلع لے لینا چاہئے، کیا زمینی سطح پر یہ سب آسان ہے؟ مطلقہ کی شادی ہمارے معاشرے میں کتنی مشکل ہے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے، تعد د ازواج کے حامی بھی جب شادی کی بات آتی ہے تو کنواریوں کو پریفر کرتے ہیں، پچاس سال اور بیس بائیس سال کا ریشیو اکثر دیکھنے کو مل جاتا ہے، مطلقہ اور بیوائیں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔
بیوی کا شوہر سے سوال کرنا، شوہر کا جواب دینا نہ دینا، یہ سب پیار اور کئیر کے قبیل سے ہیں، ہر چیز میں جائز ناجائز گھسیڑنا اچھی عادت نہیں ہے، ’’عاشروھن بالمعروف‘‘ بھی کوئی چیز ہے اسلام میں؟؟
فیمینزم کے رد میں ری ایکشنری بیانیہ کاکوئی مطلب نہیں، حالانکہ فیمینزم کی تحریک بھی پیٹریارکی کا ری ایکشن ہے، اور ظاہر سی بات ہے کہ ری ایکشن کوئی بھی ہو، اس میں انصاف سے زیادہ مقابل بیانیے کو مات دینا مقصود ہوتا ہے، ہمارے لئے عدل اور احسان کو لازم پکڑنا ضروری ہے، اور اسی عدل و احسان کی ترویج و اشاعت کرنا بھی، بیوی کو سر پر چڑھانا اور بیوی کو پیروں کی دھول سمجھنا دونوں دو انتہائیں ہیں، ایک کو غلط ٹھہرانے کے لئے دوسرے کو جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا۔
عزیر احمد
جون ۲۰۱۲۱
