سترہ اکتوبر ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے، اسی دن مسلم ایجوکیشن کے مسیحا اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی و مؤسس سر سید احمد خان کی پیدائش ہوئی تھی، یہ دن پوری دنیا کی علیگ برادری کے لئے عید کا دن ہے، ہر سال سر سید ڈے نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے، سر سید رحمہ اللہ کی ولادت سترہ اکتوبر ۱۸۱۷ کو ہوئی تھی، یہ وہ صدی تھی جب مغلیہ سلطنت کے زوال میں آخری کیل ٹھونکی جارہی تھی، مسلمان اجتماعی طور پر راستہ بھٹک چکے تھے، ان کو نہیں سمجھ میں آرہا تھا کہ وہ ماضی میں جئیں یا حال کے اندھیروں میں گم ہوجائیں۔ ایسے دور میں سر سید نے مسلمانوں کا ہاتھ تھاما، انہیں مستقبل کی راہ دکھائی، اور ایسا پودا لگایا جس کی جڑیں زمین میں پھیل گئیں اور جس کی شاخیں آسمان کو چھونے لگیں۔
ایک ایسا شخص جس کی پوری زندگی قربانیوں سے عبارت ہے، ہم نے اس کے ویژن کو کہیں نہ کہیں فراموش کردیا ہے، اور اس کے مقصد کو سیلیبریشن کی شہنائیوں میں گم کردیا ہے، آج سر سید ڈے کے نام پر کیا کر رہے ہیں، بس چراغاں کرنا، قمقمے اور لائٹوں سے عمارتیں روشن کردینا، لاکھوں کروڑوں روپئے سیلیبریشن کے نام پر خرچ کردینا، اور پھر اخیر میں بریانی کھا کر سوجانا، اس سے زیادہ اور کیا کر رہے ہیں، نئی نسل سرسید سے اب بس اتنی ہی واقف ہے کہ ان کی بدولت انہیں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ملی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں، یہ خراج عقیدت نہیں ہے، نہ ہی یہ سرسید کے خوابوں کی تعبیر ہے، سر سید کی وفات کو کچھ ہی عرصے بعد ڈیڑھ سو سال گزر جائیں گے، کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تعلیم کے میدان میں سر سید کے ویژن کو حاصل کر لیا ہے؟
اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب سر سید نے اپنے ویژن کو لانچ کیا تھا تو وہ ایسے ہی تھا جیسے کسی نے نئے مذہب کا اعلان کردیا ہو، ۱۸۳۵ میں انگریزوں نے نئے نظام تعلیم کو متعارف کروایا، پوری مسلم کمیونٹی نے اس کے خلاف پٹیشن کا انبار لگا دیا، انہیں لگتا تھا کہ نیا نظام تعلیم ہندوستان کو عیسائی بنا دے گا، ایسی صورتحال میں سر سیداحمد خان وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے انگریزی تعلیم کو اہمیت کو سمجھا، ۱۸۵۹ میں انہوں نے سب سے پہلے مراداباد میں ایک مدرسہ قائم کیا جس میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ماڈرن ایجوکیشن بھی پڑھایا جانے لگا۔ پھر ۱۸۵۷ میں دوسرا مدرسہ انہوں نے غازی پور میں شروع کیا، جسے بعد میں وکٹوریا ہائی اسکول کے نام سے جانا جانے لگا، ۱۸۶۵ میں تعلیمی اصلاحات کے لئے ’سائٹفک سوسائٹی‘ کی بنیاد ڈالی، پھر علیگڑھ میں ۱۸۷۵ میں ’محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘ کی بنیاد ڈالی جسے ۱۹۲۰ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا۔
لیکن یہ پورا پروسیس آسان نہیں تھا، سر سید احمد خان نے اس کے لئے گالیاں کھائیں، ان کے لئے سب سے زیادہ مشکل لوگوں کو یہی سمجھانا تھا کہ انگریزوں کی مخالفت کا مطلب انگریزی تعلیم کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے، ان کے یہاں "قوم" کا تصور بہت مضبوط تھا، انہوں نے "قوم" کی فلاح و بہبود اور اس کی مضبوطی کے لئے ہر وہ کام کیا جس سے انہیں لگا کہ اس سے قوم کی قسمت بدل جائے گی، "برٹش راج اور قومی ریلیشن شپ" کی بات کرکے وہ مطعون بھی ہوگئے، یہاں تک کہ انگریزوں نے انہیں اپنا سب سے وفادار محمڈن بھی قرار دیا، اسلام کے متفق علیہ مسائل میں انہوں نے اجتہاد کیا، انہیں لگتا تھا کہ قوم کے پیچھے رہ جانے کی وجہ ان کا جمود ہے، انگریزی تعلیم سے دوری ہے، کچھ واہموں اور خرافات پر یقین ہے، ان کی نیت صاف تھی، ان کے عقائد ختم ہوگئے، جو عمل انہوں نے انجام دیا، اس کی روشنی صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی ضیاء پاشیوں سے چکا چوندھ کر رہی ہے۔
سرسید کے یہاں "قوم" کا تصور اس قدر مضبوط تھا کہ اس کے لئے گھر گھر بھیک بھی مانگنے کے لئے تیار تھے، آج جتنے بھی سر سید کی محبت میں وارے جارہے ہیں کیا وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتا سکتے ہیں کہ ان کے یہاں "قوم" کا تصور کتنا مضبوط ہے، "قوم" کو وہ کیا دے سکتے ہیں، اور کیا دے رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سرسید کے تعلیمی نظریات اب پس پشت ڈالے جارہے ہیں؟ کیا سر سید کا مقصد انگریزوں کی غلامی کے لئے افراد تیار کرنا تھا؟ یا انہیں "قوم" کی قیادت سونپنی تھی؟ ایک سر سید نے اتنا بڑا کام کیا، اور بدلے میں ہم لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کیا "سرسید ڈے" پر یونیورسٹی برادری اور المنائی کو سر جوڑ کر نہیں بیٹھنا چاہئے؟ کیا "مسلمانوں کی تعلیم" کے متعلق ان کے جو افکار و نظریات ہیں، ان پر بحث و مباحثہ نہیں ہونا چاہئے؟
ایک زمانہ تھا کہ یونیورسٹی پر ملحدوں کا قبضہ ہوگیا تھا، مجھے یقین ہے سرسید کا خواب ملحد پیدا کرنا بالکل نہیں تھا، اور نہ ایسے لوگوں کی پرورش و پرداخت کرنا تھا جنہیں پتہ ہی نہیں ہو کہ وہ کس "قوم" اور کس "ملک" سے تعلق رکھتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان اور بحیثیت ہندوستانی شہری انہیں کس طرح کا آئیڈیل بننا چاہئے، سر سید کا مقصد برطانوی نظام تعلیم کے مطابق کالج بنانا تھا لیکن اسلامی اقدار سے سمجھوتہ کیے بغیر، وہ چاہتے تھے کہ یہ کالج قدیم اور جدید، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کام کرے، وہ مشرقی تعلیم کی اہمیت سے غافل نہیں تھے اور ماضی کے بیش قیمتی ورثے کو آئندہ نسلوں تک صحیح سلامت پہونچا دینا چاہتے تھے۔
سر سید علیہ الرحمۃ مسلمانوں کو تعلیم کے اوج ثریا پر دیکھنا چاہتے تھے، ان کی خواہش بس اتنی نہیں تھی کہ علیگڑھ میں ایک کالج قائم ہوجائے، بلکہ وہ پورے ملک میں مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جانے والے انسٹیٹوشنز کا جال بچھا دینا چاہتے ہیں، جس میں غریب اور دبے کچلے طبقے کے لوگ بھی بغیر کسی امتیازی سلوک کے تعلیم حاصل کرسکیں، اور زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔
سر سید نے طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میرے بچو ! آپ لوگ ایک خاص مقام پر پہونچ چکے ہیں، ایک بات یاد رکھیں کہ جب میں نے اس کام کی شروعات کی تھی تو مجھ پر چاروں طرف سے تنقید ہورہی تھی، مجھے گالیاں دی گئیں، میری زندگی اتنی دشوار ہوگئی تھی کہ میں عمر سے پہلے ہی بوڑھا ہوگیا تھا، میرے بال جھڑ گئے، میری بصارت ضائع ہوگئی، لیکن میری بصیرت کبھی ماند نہیں پڑی، میرا عزم کبھی ناکام نہیں ہوا، میں نے یہ ادارہ آپ کے لئے بنایا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ آپ اس ادارے کی روشنی کو چہار جانب پھیلائیں گے، اور چاروں طرف سے اندھیرے کا خاتمہ کریں گے۔"
سرسید کا کہنا تھا کہ اسلام کا چہرہ دوسروں کو نہ دکھائیں، اس کے بجائے اپنا چہرہ حقیقی اسلام کے پیروکار کے طور پر پیش کریں جو اعلی کردار، علم، رواداری، اور نیکی کی نمائندگی کرے۔
سو سر سید ڈے ضرور منائیں، لیکن سر سید کے ان پیغامات کو بھی دھیان میں رکھیں، اور اس کے لئے کوشش کریں کہ کس طرح ہم حال میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں، اس کے لئے کیا لائحہ عمل بنائے جا سکتے ہیں، تاکہ جو ابر یہاں سے اٹھے، وہ سارے جہاں پر برسے، یاد رکھیں کہ جب جب ہندوستان میں تعلیم کی بات ہوگی، سر سید شمالی ہند میں تعلیم کے بابائے اعظم کے طور پر نظر آئیں گے، لیکن کیا ان کے ادارے سے پڑھ کر نکلنے والے ان کے سچے جانشین کہے جانے کے حقدار ہیں؟؟
عزیر احمد
