دل ہی عیار ہے بے وجہ دھڑک اٹھتا ہے!

 یہــود و نصــاری کو دوست بنانے کے تعلق سے نص صریح ہے، لیکن کیا آپ نے کسی کو دیکھا ہے جو ان تعلقات پر سوال اٹھاتا ہے؟ سب اسے دور جدید کا نیا سیٹ اپ کہہ کر نکل لیتے ہیں، اور اسے دو ریاستوں کے مابین انٹرسٹ پر مبنی ریلیشن کا نام دیکر جواز ڈھونڈھ لیتے ہیں، میں اسے غلط نہیں کہہ رہا، لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ پھر ح-ماس کو شیـعی تعلقات کی بنیاد پر مطعون کیوں کیا جاتا ہے؟ جتنی چھوٹ ہم دوسروں کو صلــیبی اور صیہو-نی تعلقات کی بنیاد پر دیتے ہیں اس سے کم چھوٹ ہم ح-ماس کو دینے میں آنا کانی کیوں کرتے ہیں؟ پتہ ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہے ہماری عصبیت اور ہمارا مسلسل ایک ہی سرکاری نیریٹیو کے بھرم میں زندہ رہنے کی عادت۔

ایـران دودھ کا دھلا نہیں ہے، مگر ساری دنیا کی ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں، کچھ ریاستوں کو وہ آنکھ نہیں بھاتا، مگر پھر بھی اس کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں، خود سعودیہ کے ساتھ بھی اس کے رشتے بنتے بگڑتے رہے ہیں، سو یہ جو روابط ہیں نا یہ موجودہ دنیا میں ناگزیر ہیں، حم-اس کے بھی ایران کے ساتھ جو تعلقات ہیں وہ بھی وقت اور حالات کے جبر کی پیداوار ہیں، 1979 کے انقلاب کو خمــینی نے "اسلامی انقلاب" قرار دیا تھا، اور اس انقلاب کو دیگر ملکوں میں ایکسپورٹ کرنے کا وعدہ کیا تھا، ایسی صورت میں ایران کو ایک ایسے مقدس مقام کی ضرورت تھی جو اسے مسلم دنیا میں ایک شرعیت عطا کر سکے، بیت اللہ آل سعود کی نگرانی میں تھا، اور آل سعود کی حکومت اس زمانے تک اتنی ترقی کر گئی تھی کہ اس پر براہ راست حملہ کرنا، یا اس کے خلاف بہت زیادہ پروپیگنڈہ چلا کر حکومت گرانا ممکن نہیں تھا، سو انقلاب کے ذمہ داروں نے اپنا رخ فـلســطین کی طرف کیا جہاں مسلمانوں کا تیسرا سب سے مقدس مقام واقع ہے، اور چونکہ وہ مقبوضہ بھی تھا سو لازمی نتیجہ تھا کہ جو بھی اسٹیٹ اس کی حمایت کرتا، عالم اسلام میں اس کے تئیں ہمدردی کا گراف بڑھنا ہی تھا، کہانی لمبی ہے بس مختصرا یہ سمجھ لیں کہ ایران کا فلسطینی قضیہ میں فریق کی حیثیت سے داخل ہونا یاسر عرفات کے دور میں ہی ہوگیا تھا، ف-لسطینی لبریشن اتھارٹی نے شاہ ایران کی بے دخلی سے پہلے ہی انقلابیوں کو سپورٹ کرنا شروع کردیا تھا، یہاں تک کہ خمیــنی جب پیرس میں تھا تو انہوں نے اسے باڈی گارڈ بھی مہیا کرائے تھے، پاســداران انقلاب کے بہت سارے اہم کرداروں نے باقاعدہ لبنان میں پی۔ایل۔او کے کیمپوں میں ٹریننگ حاصل کی تھی، اور اسلامی انقلاب کے بعد یاسـر عرفات ایران کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی لیڈر تھے۔

پھر 1980 کے دوران پی۔ایل۔او نے جب اســرائیل کے ساتھ بیک ڈور گفت و شنید کی شروعات کی اور مسلح جدوجہد کو ترک کرنے کی بات کی تو دونوں کے تعلقات میں دراڑ آ گیا، اور علاقائی سیکورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران نے اپنا رخ مسلح تنظیموں کی طرف پھیر لیا، ایرانی حکام نے پہلی بار 1987 میں بیروت میں پی۔آئی۔جے (فل-سطینی اس-لامی ج-ہاد) کے رہنماؤں سے اس وقت رابطہ کیا جب اسر-ائیل نے فلـســطینی قومی لیڈرشپ کو دبانے کے لئے انہیں مغربی پٹی اور غزہ سے لبنان جلاوطن کردیا، اور یہ تعلقات 1992 میں مزید مستحکم ہوگئے جب پی۔آئی۔جے اور ح-ماس کے سینکڑوں اراکین کو لبنان کے مرج الظہور میں دیس نکالا دیا۔

ایـران اور حمــاس دونوں ایک ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، ایران مدد کیوں کر رہا ہے اس کا ایک تجزیہ میں نے کردیا ہے، بنیادی فکرہ یہی ہے کہ مدد کرکے اگر وہ تباہ ہوتے ہیں تو ایـران کا کوئی نقصان نہیں، اور کامیاب ہوتے ہیں تو پھر ایران کی چاندی ہی چاندی، کامیابی کی صورت میں یہ لوگ ہمیشہ احسان مند رہیں گے، اور ناکامی کی صورت میں ہزاروں اعتذار تو ہیں ہی، یہاں ایران کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہے، اور سنی ریاستی اسی میں ناکام پڑ رہی ہیں۔
تب تک فل-سطینی تنظیمیں اس نتیجے پر پہونچ چکی تھیں کہ انہیں اســرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد میں کامیابی کے لئے ایک مضبوط ریاستی سرپرستی کی ضرورت ہے، جو نہ صرف ان کی مالی مدد کرسکے بلکہ اسلحہ جات، ٹریننگ اور دیگر شعبوں میں بھی بھرپور رہنمائی کر سکے، 1967 کے بعد کوئی بھی عرب اسٹیٹ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ اســرائیل کے خلاف جا کر مغرب کو اپنا دشمن بنا سکے، نتیجہ کے طور ان کے تعلقات ایران کے ساتھ ہر گزرتے دن مضبوط ہوتے چلے گئے، ایران نے ان کے لئے نہ صرف اسلحہ اسمگل کروایا، بلکہ ان کے انجینئروں کو ٹریننگ بھی دی، حالیہ جنگ میں بہت سارے اسلحے خود ح-ماس کے سائنسدانوں کے ذریعہ تیار کردہ استعمال میں لائے گئے۔

سو ایسا نہیں رہا ہے کہ دو طرفہ تعلقات سنی حم-اس اور پی۔آئی۔جے اور شیعہ ایران کے درمیان نظریاتی وابستگی کی وجہ سے رہی ہے، بلکہ یہ زمینی سطح پر مشترکہ مفادات سے پیدا ہونے والی سہولت کا رشتہ رہا ہے، اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ عرب بہاریہ میں ان کی مرکزی قیادت جو کہ دمشق میں مقیم تھی اس کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا، کیونکہ انہوں نے اسد کی حمایت میں ایران کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا، بدلے میں ایران نے حم-اس کو دی جانے والی 150 ملین ڈالر کی سالانہ مالی معاونت کو کم کرکے 75 ملین ڈالر کردیا اور پی۔آئی۔جے کی مالی مدد بڑھا دی، لیکن جب سعودی عرب نے یمن میں جنگ برپا کی تو پی۔آئی۔جے نے سعودی کے خلاف جانے اور حوثیوں کی مدد کرنے سے نکار دیا۔ اس دوران ح-ماس اور پی۔آئی۔جے دونوں تنظیموں نے الٹرنیٹ سورس آف سپورٹ کو تلاش کرنا شروع کردیا، حم-اس نے قطر کے ساتھ اپنے رشتے مضبوط کئے اور اپنی مرکزی قیادت کو دوحہ میں شفٹ کردیا، ادھر پی۔آئی۔جے نے بھی ترکی اور الجیریا یہاں تک کہ سعودی عرب سے بھی مالی مدد تلاش کرنی شروع کی، لیکن ان سب ممالک کے ساتھ مسئلہ یہی تھا کہ یہ لوگ مالی معاونت کرسکتے تھے، مگر عسکری معاونت ان سے ممکن نہ تھی، لے دے کر ان کے پاس پھر ایران ہی آپشن بچا تھا، سو انہوں نے یمن اور شام کے معاملے پر اپنی پوزیشن کلئیر کی اور ایک بار پھر ایران کے پالے میں چلے گئے۔

ایران کی خوش قسمتی شروع سے یہ رہی ہے کہ بظاہر دکھانے کے لئے ہی سہی، مگر وہ "مرگ بر امــریکہ" اور "مرگ بر اســرائیل" کا نعرہ لگاتا چلا آیا ہے، اس کے علاوہ روس اور چائنا سے اس کے قریبی تعلقات اس کے لئے پلس پوائنٹس رہے ہیں، اسی وجہ سے فلس-طینی مسلح تنظیمیں اس سے قریب بھی رہی ہیں تاکہ ایران کے ذریعہ ان کا Acces دنیا کے متبادل طاقت کے ذرائع تک ممکن رہے، 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کئی بار حم-اس کی لیڈرشپ ماسکو میں دیکھی گئی، بلکہ حال ہی میں 23 جولائی میں بیجنگ میں چائنیز فارین منسٹر کی موجودگی میں فل-سطین کی دو سب سے اہم تنظیم الف-تح اور حم-اس سمیت دیگر بارہ تنظیموں کے درمیان "امن معاہدہ" ہوا ہے، جسے "بیجنگ ڈکلیریشن" کا نام دیا گیا ہے، واضح رہے کہ چین تاریخی طور پر فل-سطینی کاز کا ہمدرد اور دو اسٹیٹ حل کا حامی رہا ہے۔

سو اتنی لمبی چوڑی تفصیل سے بتانے کا مقصد محض اتنا ہے کہ حم-اس اور ایران کی کوئی آسمانی شادی نہیں ہے، بلکہ اس میں ایران کا اپنا مقصد اور حم-اس کی اپنی مجبوری شامل ہے، ایران کو اپنا انفلوئنس بڑھانا اور مشرق وسطی میں مرکزی کردار ادا کرنا ہے، اور حم-اس کو ملٹری سپورٹ چاہئے جو عرب مملکتوں میں سے کسی کے بس میں نہیں، کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ تار عنکبوت سے بنی ان کی مملکت میں کب مغرب کی جانب سے کانسپریسی کے طور پر جمہوریت کی ہوا چلا دی جائے کچھ پتہ نہیں، سو اس تعلق کی وجہ سے ہائیر ٹینشن میں آ کر "رافضیوں کی گود میں بیٹھی ہوئی تنظیم" اور "فلانے ڈھکانے" کے نعرے لگانے کے بجائے گراؤنڈ ریلیٹیز کو سمجھئے اور جن بنیادوں پر دیگر ملکوں کے تعلقات کو انالائز کیا جاتا ہے انہیں بنیادوں پر ان کے بھی تعلقات کو تولئے، پرکھئے، اور دل کرے تو حم-اس کا شکریہ بھی ادا کیجئے کہ اس نے اس-رائیل کو کم سے کم خود میں الجھا رکھا ہے، ورنہ سوچئے اگر وہ حالت امن میں ہوتے تو ریاض اور دبئی کے محلوں میں اب تک کیا کیا سازشیں چل رہی ہوتیں۔

عزیر احمد

All react
ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی