ہندوستان مختلف تہذیبوں کا دیش ہے، مخلتف مذاہب، ادیان اور مختلف فرقوں کے لوگ یہاں بستے ہیں، اس ملک کی خوبصورتی کسی ایک رنگ میں پنہاں نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کے رنگوں کا امتزاج ہی اسے دنیا کے دیگر ممالک سے مختلف بناتا ہے، کثرت میں وحدت ہی اس کا امتیاز ہے، اس کی ترقی کا راز امن و امان ہی میں مضمر ہے، جب تک تمام مذاہب کا یکساں احترام کیا جاتا رہے گا، ہر مذہب کے ماننے والوں کو اس ملک کا Legitimate باشندہ سمجھا جاتا رہے گا، تمام شہریوں کے ساتھ بغیر رنگ، نسل، ریس، اور دین کی تفریق کے یکساں سلوک کیا جاتا رہے گا، انہیں کانسٹیٹیوشن کے ذریعہ عطا کردہ تمام حقوق عطا کیا جاتا رہے گا، تب تک یہ ملک ترقی کرتا رہے گا، اس ملک کو کسی ایک رنگ میں رنگنے، یا کسی خاص نظریے کو پورے ملک پہ تھوپنے کی ذرا سی بھی کوشش اس ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لئے نقصاندہ ہے، عروج کے منازل سارے آئیڈیاز، سارے افکار و نظریات اور سارے مذاہب کو ساتھ لیکر چلنے ہی سے طے کیا جاسکتا ہے۔
آج کل پورے ملک میں جس طرح کا ماحول بن چکا ہے یا بنایا جارہا ہے، وہ ہر امن پسند شخص کے لئے نہایت ہی پریشان کن ہے، سیکولر اور انصاف پسند طبقہ یہ سوچ سوچ کے پریشان ہے کہ آخر جو کچھ ہورہا ہے، اس کا انجام کیا ہوگا؟ کہیں اس جنریشن کو بھی خانہ جنگی کا وہ عذاب نہ جھیلنا پڑے گا جسے سالوں پہلے یوروپ جھیل چکا ہے، اقلیتی طبقہ کے خلاف اکثریتی طبقے کا اس طریقے سے متحد ہوجانا کہ ان کے اوپر اپنی ہر خواہش کو مسلط کرنے کی کوشش کرنا کہ وہ کیا کھائیں، کیا پہنیں، کیسے رہیں، کلچرل آئیڈنٹی کیسی ہو، یہ سب اپنے آپ میں اس ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار کی ایوانوں تک پہونچنے کے لئے گاؤں، دیہات یا شہروں وغیرہ میں جو فسادات کرائے جاتے تھے، اس نے اب تعلیمی اداروں کا رخ کرلیا ہے، یونیورسٹیاں اب سیاست کا وہ پچ گئی ہیں جس کے اوپر بیٹنگ کرکے ملک کے خد و خال طے کئے جارہے ہیں، کس ادارے کے طلبا نیشنلسٹ ہیں، کس ادارے کے طلباء غدار وطن ہیں، اب یہی سب ثابت کرکے عام جنتا کے ذہنوں کو زہر آلود کیا جارہا ہے، اور اس کے ذریعہ الیکشن میں کامیابی کی راہ ہموار کی جارہی ہے، آر.ایس.ایس کی بچہ پارٹی اے.بی.وی.پی (اکھل بھارتیہ ودیا پریشد) اس کھیل میں بڑھ چڑھ کے حصہ لے رہی ہے، مختلف یونیورسٹیوں کے تعلیمی فضا کو مسموم بنانے، طلباء کو برہمن-دلت یا ہندو-مسلم سیکشن میں ڈیوائڈ کرنے میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اقتدار کے بھوکوں نے اسے اسی پروجیکٹ کے لئے لانچ کیا ہو تاکہ یہ یونیورسٹیوں ماحول خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرسکے، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی سے لیکر جے.این.یو، اور ایم.اے.یو ہر جگہ اس تنظیم کے اراکین سازشیں کرتے نظر آتے ہیں، ایم.اے.یو کا واقعہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اب خبروں کے مطابق اس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بھی ماحول کو خراب کرنے اور ہندو مسلم طلباء کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرڈالی، اس کے کچھ طلباء نے جھلینا سے لیکر جامعہ کے مین گیٹ تک مارچ نکالا، اور اس قسم کے نعرے لگائے کہ "ہندؤوں کو ڈرانا بند کردو"، "جناح کے پریمیو دیش چھوڑو"، وغیرہ وغیرہ، مجھے ہنستی آتی ہے ان لوگوں پہ کہ آخر یہ لوگ ہندؤوں کو ڈرائے جانے کی بات کیسے کرسکتے ہیں، جس ملک کا صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ، پرائم منسٹر، بیسیوں اسٹیٹس کے چیف منسٹرز، ہزاروں سول سرونٹس، ججز، وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئرز سب انہیں کے آدمی ہوں اس ملک کی ایک چھوٹی سی یونیورسٹی میں انہیں مذہب کے نام پہ ڈرائے جانے کا خوف ستا رہا ہے، احمق لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ وہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی نہیں خود کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں کہ یہ کیسے بزدل لوگ ہیں جو میجوریٹی میں ہوکے بھی مائنارٹی سے ڈرتے ہیں۔
سب کو پتہ ہے کہ ۲۰۱۹ کے الیکشن کی تیاری ہے، اور اس سے پہلے کئی اسملبیوں کے الیکشنز کا بھی سامنا کرنا ہے، اس کے لئے بی.جے.پی کچھ نہ کچھ ہتھکنڈے ضرور اپنائے گی، لیکن اتنی اوچھی حرکت کرے گی اس کا اندازہ تو کیا جاسکتا تھا پر امید نہیں تھی، لوگ تو یہی سوچ رہے تھے کہ زیادہ سے زیادہ فسادات کروائے گی، ہندو مسلم منافرت پیدا کرے گی، رام مندر کا مسئلہ اٹھائے گی، یہ کہاں کس نے سوچا تھا کہ ملک کے سیکولر انسٹیٹیوشنز پہ بھی حملہ کرے گی، خیر جاہلوں سے کچھ بھی بعید نہیں، اے.بی.وی.پی اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی شکل میں غنڈہ پارٹی ہے، اگر اس کی حرکتوں پہ لگام نہیں لگایا گیا تو ایک بار پھر مسلمانان ہند کو وہ اسی مقام پہ لا کھڑا کردے گی جس مقام پہ وہ ۱۹۳۰ میں تھے، پھر ۱۹۴۰ آتے آتے کوئی جناح اٹھ کھڑا ہوجائے گا۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اس ملک کی بقاء، اس کا اتحاد، اس کی حفاظت اس کے تمام مذہبی شناختوں کی بقاء، سب کے لئے Equal Rights اور Equal Treatment میں ہے، آئیڈنٹیٹیز پہ جب بھی حملہ کرنے کی کوشش کی جائے گی، لوگ اس کی بقاء کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے، پھر جو بھی طریقہ انہیں مناسب لگے گا وہ وقت، اور حالات کے اعتبار سے اختیار کرلیں گے، یہی آزادی سے پہلے بھی پیش آیا تھا، اور یہی آزادی کے بعد بھی پیش آرہا ہے، بی.جے.پی کو سوچنا چاہیئے کہ وہ ملک کو کس جگہ لے کے جارہی ہے، الیکشن جیتنے کے لئے جو ہتھکنڈے وہ اپنا رہی ہے، اس کا انجام کیا ہوگا، صبر کا مادہ ایک نہ دن لوگوں میں لبریز ہی ہوجانا ہے، پھر وہ بھی ری ایکشن کی پالیسی پہ اتر آئیں گے، اس وقت کوئی بھی نہیں بچے گا، نہ ملک، نہ اس ملک میں رہنے والے لوگ۔
بہتر یہی ہے کہ بے.جے.پی اس قسم کے گندے کھیل کھیلنا بند کردے، متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے لئے جتنا ذمہ دار ہے جناح ہے، اتنا ہی ذمہ دار ساورکر اور ہندو سبھا کے بانی و مبانی اور اراکین ہیں، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے، آج کا ماحول جب میں دیکھتا ہوں تو وہ دور، اس کا منظر اور پس منظر بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے کہ جناح "عدم تحفظ" کا شکار کیوں ہوا تھا، اور کیوں اس نے ملک کے بٹوارے کی راہ اختیار کی، باوجود یکے کہ وہ ایک سیکولر تعلیم یافتہ شخص تھا، جس کے غیر مسلموں سے بہترین تعلقات تھے، پھر بھی اس نے ایک الگ راہ کیوں اختیار کی، میں جناح کا حامی نہیں ہوں یا جناح کے فیصلے کو جسٹیفائی نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میں اسے مسلمانوں کی متحدہ طاقت کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے کا ذمہ دار مانتا ہوں، بس میں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے فیصلے Extreme Frustration اور "شدید عدم تحفظ کے احساس" کی پیداوار ہوا کرتے ہیں، اگر مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کیا جائے گا، انہیں ان کے مذہب کی وجہ سے ستایا جائے گا، تو کوئی نہ کوئی اٹھ کھڑا ہوگا جو کہے گا کہ اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو ایسا کرو، اگر ہندو مسلم میں ہم آہنگی نہیں ہوسکتی، باہمی اتحاد نہیں ہو سکتا، تو پھر ایسا کرو ہمیں الگ کردو، ہر سخت اور متشدد فیصلے کے پیچھے سخت اور متشدد اسباب بھی ہوتے ہیں، چیزیں اپنے نتائج کے ذریعہ ضرور پہچانی جاتیں ہیں مگر ان نتائج کے لئے پروسیجر بہت اہم ہوتا ہے، اسٹرکچر اور پراسیس یہ دونوں ایک دوسرے کا لازمی جزء ہیں، صرف اسٹرکچر دیکھ کے صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کے لئے پروسیس پہ بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔
اور یہ سب پروسیس جو پورے ملک میں چل رہا ہے کہ مسلمانوں کا گئو رکشا کے نام پہ قتل کردیا جارہا ہے، انہیں نماز پڑھنے سے روکا جارہا ہے، لو جہاد کے نام پہ قتل کیا جارہا ہے، جبرا گھر واپسی کرائی جارہی ہے، ان کے شناخت مثلا برقعہ، ٹوپی اور کرتا وغیرہ پہ حملہ کیا جارہا ہے، ان کے تعلیمی اداروں پہ پہرے بٹھائے جارہے ہیں، پورے ملک میں نفرت کی فضا کو بھڑکایا جارہا ہے، ہندو-مسلم منافرت کو ہوا دی جارہی ہے، یا اس طرح کے دیگر واقعات انجام دئیے جارہے ہیں، انہیں اگر روکا نہ گیا تو یہ ساری چیزیں ایک بڑے واقعے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتیں ہیں جو پورے ملک کے لئے لانگ ٹرم میں بہت ہی نقصاندہ ہے، اس لئے بی.جے.پی اگر یہ چاہتی ہے کہ مستقبل میں ماضی کی تاریخ نہ دہرائی جائے تو اسے چاہیئے کہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آجائے جو مسلمانوں میں عدم تحفظ کی نفسیات کو جنم دیتی ہیں، اور سب کو ساتھ لیکر چلنا سیکھ لے، امن و امان اور عدم تشدد کے راستے کو اختیار کرے کہ اسی میں سب کی بھلائی مضمر ہے، اور اسی میں ملک کی سالمیت اور اس کی وحدت کی بقاء ہے۔
عزیر احمد
مئی ۲۰۱۸
