اسلام دین فطرت ہے, اسے ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے, اس کی تعلیمات, اس کے احکام و فرامین میں دنیا و جہان کی حکمتیں پوشیدہ ہیں, اس نے زندگی کے ہر پہلو کی طرف رہنمائی کی ہے, ہر گوشے پہ روشنی ڈالی ہے, قران وحدیث کی شکل میں ایک قانون لوگوں کو عطا کیا ہے, جو مساوات کی بات کرتا ہے, لوگوں کو عدل و انصاف کے ترازو پہ تولتا ہے, سماجیات سے لیکر اقتصادیات تک, سیاسیات سے لیکر معاشیات تک, ہر ایک کے لئے اصول و ضوابط پیش کرتا ہے, اس کی نظر میں ہر شخص بحیثیت انسان برابر ہے, خواہ وہ مرد ہو یا عورت, غلام ہو یا لونڈی, باشاہ ہو یا فقیر, غرضیکہ ہر ایک اس کی نظر میں برابر ہے, پر اس نے ہر ایک کے لئے کچھ حدود متعین کر رکھے ہیں, جو فطرت کے عین تقاضوں کے مطابق ہے, یہ الگ بات ہے کہ ہماری سمجھ میں نہ آئے۔
اسلام کے اوپر سب سے زیادہ جو اعتراض کیا جاتا ہے, وہ عورت کے تعلق سے ہے, نام نہاد مغربی مفکرین سب سے زیادہ آنسو اسی بات پہ بہاتے ہیں کہ اسلام عورتوں کو برابر نہیں قرار دیتا, وہ ان کو گھروں میں مقید رکھنے کا حامی ہے, گھر سے باہر نکلنے کے لئے وہ ان پہ برقع کی پابندی لازم کرتا ہے, اجنبیوں سے بات کرنے سے منع کرتا ہے, عورتوں کو پردہ کا پابند بناتا ہے, جس کی وجہ سے وہ ترقی نہیں کرپاتیں, ان کی صلاحتیں کھل کے سامنے نہیں آ پاتیں, غرضیکہ طرح طرح کے ہفوات و خرافات بکتے رہتے ہیں۔
پر جب ہم بنظر غائر تاریخ کے مطالعہ کرتے ہیں, اور پھر اسلام کے احکام و قوانین پہ نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات مکمل طریقے سے واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو عورتوں کو مختلف قسم کے حقوق سے نوازتا ہے, اسلام کے آنے سے پہلے سے عورتوں کی جو حالت تھی وہ کسی سے مخفی نہیں ہے, انہیں کھلونا سمجھ کر ان سے صرف دل بہلایا جاتا تھا, ان کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا, انہیں صرف اپنی شہوت پوری کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا, نہ ان کی کوئی عزت تھی, اور نہ ہی کوئی حیثیت۔
مگر جب اسلام آیا تو اس نے عورتوں کو استقرار عطا کیا, اسے ماں کی شکل میں اتنا اونچا مقام دیا کہ اس کے قدموں تلے جنت قرار دیا, بہن کی شکل میں ایک تحفہ عطا کیا, بیوی کی شکل میں رفیق سفر عطا کیا, وراثت میں اس کا حصہ مختلف طریقوں سے متعین کیا, ماں کی حیثیت سے, بہن کی حیثیت سے, بیوی کی حیثیت سے, پھوپھی کی حیثیت سے, بھتیجی کی حیثیت سے, دادی کی حیثیت سے, نانی کی حیثیت سے, غرضیکہ ہر طریقے سے اسے سربلندی اور رفعت عطا کی, اور اس کے مقام کو بلند کیا۔
اس کے ساتھ اس نے پردہ کو بھی لازم قرار دیا, تاکہ ہوس پرست لوگوں کے چنگل سے وہ محفوظ رہ سکے, نفسانی خواہشات کے غلاموں کی پکڑ میں نہ آسکے, شمع محفل بننے سے احتراز کر سکے, کسی کی رونق شام بننے سے بچ سکے, اس نے پردہ کو اس کی ترقی کا رکاوٹ نہیں قرار دیا, بلکہ اس کی ترقی کی راہ میں اس کے عصمت کی محافظ قرار دیا۔
اسلام نے عورتوں کو ہمیشہ آگے بڑھایا ہے, جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس دور میں داخل ہوتے ہیں جب جنگیں ہوا کرتیں تھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی بطور ڈاکٹر اور بطور نرس ان جنگوں میں شریک ہوا کرتیں تھیں, زخمیوں کو پانی پلاتیں, اور ان کی مرہم پٹی کرتیں تھیں, پھر جب ہم اور آگے چلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جنگ صفین میں ایک عورت پورے لشکر کی قیادت کر رہی ہوتی ہے, تھوڑا اور آگے چلتے ہیں, مسجد نبوی میں پہونچتے ہیں, تو کیا دیکھتے ہیں, حضرت عائشہ پردے کی اوٹ سے درس دے رہی ہوتیں ہیں, اور بہت سارے صحابہ کرام زانؤے تلمذ تہہ کئے ہوتے ہیں, پھر ہم اس دور سے نکل کر ہندوستان میں مغلیہ دور سے پہلے آتے ہیں, کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مسلم عورت رضیہ سلطانہ ہندوستان پہ حکومت کر رہی ہوتی ہے, پھر مغلیہ دور میں دیکھتے ہیں, بہت سارے فیصلے میں بادشاہ سلامت, بیویوں سے یا ماؤں سے مشورہ طلب کرتے نظر آتے ہیں, غرضیکہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اس طرح کی بہت ساری چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے, جس سے یہ بات بخوبی عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام نے عورتوں پہ ظلم نہیں کیا ہے, بلکہ ان کو عزت اور وقار عطا کی ہے, انہیں ہر میدان میں آگے بڑھنے پہ ابھارا ہے, پر پردے کی رعایت کے ساتھ, کیونکہ یہ پردہ ان کے عصمت کا محافظ اور ان کی عزتوں کا نگہبان ہے, جب یہ پردہ کئے ہوتیں ہیں تو دور سے ہی لوگ پہچان لیتے ہیں کہ یہ شریف زادیاں ہیں, یہ نیک عورتیں ہیں, جس کی وجہ سے وہ ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا خیال دل سے نکال دیتے ہیں۔
آج بہت ساری تنظیمیں ہیں, بہت سارے آرگنائزیشنز ہیں, جو حقوق نسواں کی بات کرتے ہیں, ویمن امپاورٹمنٹ کی پکار پکارتے ہیں, عورتوں کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں, پر جب ہم بنظر غائر ان کا مطالعہ کرتے ہیں, ان کے مقاصد و اغراض کا عملی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں, تو یہ بات کھل کے سامنے آجاتی ہے کہ یہ لوگ عورتوں کی آزادی کے نام پہ عورت تک پہونچنے کی آزادی چاہتے ہیں, وہ چاہتے ہیں کہ عورتیں دین سے بے نیاز ہوجائیں, ان کے لئے عصمت و عزت کی حفاظت ثانوی چیز بن جائے, بلکہ ان کے لئے اس کا کوئی معنی نہ رہ جائے, مذہبی بے راہ روی کا شکار ہوجائیں, تاکہ ان کا شکار آسانی سے کیا جاسکے, ان کو اپنے اشاروں پہ نچایا جاسکے۔ اور عورتیں اتنی آزاد ہوجائیں کہ ان کے لئے عصمت وغیرہ کوئی بڑی بات نہ رہ جائے, وہ جب چاہیں, جہاں چاہیں, جس کے ساتھ چاہیں, رہیں, جس کے ساتھ چاہیں, زندگی گزاریں, بغیر کسی مذہبی پابندی کے, بغیر شادی کئے ہوئے, بالکل جانوروں کی طرح, جس کے ساتھ چاہیں, بستر شئیر کریں, جس کے ساتھ چاہیں, زندگی کے لمحات شئیر کریں, نہ اخلاقیات کی پابندی ہو, نہ معاشرے کا خیال, نہ کوئی روکنے والا ہو, نہ ٹوکنے والا.
یہی وہ آزادی ہے جس کی مانگ حقوق نسواں کی تنظیمیں کرتیں ہیں, اور یہی وہ غلط فکر ہے جس نے یوروپ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے, آج یوروپ کی جو اخلاقی حالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں, لاکھوں کروڑوں بچے ایسے ہیں جن کے باپوں کا کوئی پتہ نہیں, اسکول میں ان کے نام کے ساتھ ان کے باپ کا نہیں, ان کی ماں کا نام جوڑا جاتا ہے, بسا اوقات باپ ہوتا ہے, ماں کا پتہ نہیں, ہر روز بچے کی ماں بدلتی رہتی ہے, بچہ اسکول سے گھر آتا ہے, باپ ایک نئی عورت کا اس سے تعارف کراواتا ہے, ان سے ملو, یہ آج رات کی میری نئی ساتھی ہے, غرضیکہ بے حیائی اور بے شرمی اپنے عروج پہ پہونچ چکی ہے, خاندان بنتے نہیں, نسل چلتی نہیں, شادیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا, بغیر شادی کئے ہر وہ کام انجام دئیے جاتے ہیں, جس کی نہ عقل اجازت دیتی ہے اور نہ ہی دل, اور نہ ہی مذہب اور نہ ہی اخلاق۔
یہ قانون فطرت سے بغاوت ہے, اور اس سے انحراف تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں, اسلام معاشرے کو پاکیزہ اور ستھرا رکھنا چاہتا ہے, وہ کسی بھی ایسی چیز کی اجازت نہیں دیتا جس سے معاشرے میں برائی اور بے حیائی پھیلے, کیونکہ جس بھی معاشرے میں برائی عام ہوجاتی ہے, زنا پھیل جاتی ہے, تو قدرت کو جلال آجاتا ہے, رب کا غضب قہر برپا کردیتا ہے, زمین پھٹ جاتی ہے, آسمان شعلے اگلنے لگتا ہے, زلزلوں کی کثرت ہوجاتیں, خدائی قہر کا نزول ہونے لگتا ہے, شہر کے شہر اور ملک کے ملک تباہ ہوجاتے ہیں, سونامی, نیپال کے زلزلے, لاتور اور عثمان آباد کے علاقے اور اس کے علاوہ بہت سارے واقعات و حادثات اس بات کی واضح اور روشن دلیل ہیں کہ رب کو برائی منظور نہیں, اور جب جب برائی اپنے عروج پہ ہوگی, تب تب خدا کا قہر ضرور نازل ہوگا۔
لہذا اسلام نے عورتوں کو برائی سے محفوظ رکھنے کے لئے انہیں غض بصر کا حکم دیا, تاکہ ان کی نظر کسی اجنبی پہ نہ پڑسکے, ان کے لئے برقع کو لازمی قرار تاکہ ان پہ کسی اجنبی کی نگاہ نہ پڑسکے, اجنبیوں سے نرم لہجے میں بات کرنے سے منع کیا کہ کہیں وہ نرم لہجے, شیریں گفتار, اور آواز کی کھنکناہٹ سے دھوکے میں نہ مبتلا ہوجائیں, غرضیکہ اسلام نے ہر اس راستے پہ قدغن لگادی ہے جس کے ذریعہ ان تک پہونچا جاسکتا ہے, ہر اس دروازے کو بند کردیا جس میں داخل ہوکر بے حیائی میں مبتلا ہوا جا سکتا ہے, یہ عورتوں کے لئے زحمت نہیں, رحمت ہے۔
عزیر احمد
۲۰۱۷
